شاعر: حامد یزدانی
چلو‘ پھر اُس سے ملتے ہیں
دھنک کے پار‘ بہتی چاندنی کے ساتھ
جس کی نیلی کٹیا ہے
جِسے مِلنے کی خواہش‘ نقرئی خوابوں کے جنگل میں
مہکتی ہے
گُلِ سوسن کے سائے میں نگاہیں گنگناتی ہیں
گدازِ فکر کے اُجلے دریچے سے
نمِ تخییل کی بیلیں
پرانی کھڑکیوں سے یوں لپٹتی ہیں
کہ نور آثار شامیں
عُمر کی روشن تہوں میں جھلملا اُٹھتی ہیں
لفظوں کی ادائیں کھنکھناتی ہیں
دہکتے غم‘ مچلتے عکس‘ جس کا نام بُنتے ہیں
وہ‘ جس کی خامشی کو دِل‘ ستارہ وار سُنتے ہیں
دمکتے ماضی و فردا ہیں جِس کے‘ حال جس کا ہے
مہکتے عشق کی تقویم میں‘ ہر سال جِس کا ہے
وہ‘ جس کی سوزنِ امکاں سے یہ
حرف و معانی کے پرانے چاک سلتے ہیں
چلو‘ پھر اُس سے ملتے ہیں
چلو‘ پھر اُس سے ملتے ہیں