Poetry نظم

احمد ندیمؔ قاسمی کے لیے

   شاعر: حامد یزدانی

چلو‘ پھر اُس سے ملتے ہیں
دھنک کے پار‘ بہتی چاندنی کے ساتھ
جس کی نیلی کٹیا ہے
جِسے مِلنے کی خواہش‘ نقرئی خوابوں کے جنگل میں
مہکتی ہے
گُلِ سوسن کے سائے میں نگاہیں گنگناتی ہیں
گدازِ فکر کے اُجلے دریچے سے
نمِ تخییل کی بیلیں
پرانی کھڑکیوں سے یوں لپٹتی ہیں
کہ نور آثار شامیں
عُمر کی روشن تہوں میں جھلملا اُٹھتی ہیں
لفظوں کی ادائیں کھنکھناتی ہیں
دہکتے غم‘ مچلتے عکس‘ جس کا نام بُنتے ہیں
وہ‘ جس کی خامشی کو دِل‘ ستارہ وار سُنتے ہیں
دمکتے ماضی و فردا ہیں جِس کے‘ حال جس کا ہے
مہکتے عشق کی تقویم میں‘ ہر سال جِس کا ہے
وہ‘ جس کی سوزنِ امکاں سے یہ
حرف و معانی کے پرانے چاک سلتے ہیں
چلو‘ پھر اُس سے ملتے ہیں
چلو‘ پھر اُس سے ملتے ہیں

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی