Poetry نظم

آٹوگراف

 مجید امجد

کھلاڑیوں کے خود نوشت دستخط کے واسطے

کتابچے لئے ہوئے

کھڑی ہیں منتظر….. حسین لڑکیاں

ڈھلکتے آنچلوں سے بے خبر، حسین لڑکیاں!

مہیب پھاٹکوں کے ڈولتے کواڑ چیخ اٹھے

ابل پڑے الجھتے بازوؤں، چٹختی پسلیوں کے پُر ہراس قافلے

گرے، بڑھے، مُڑے بھنور ہجوم کے

کھڑی ہیں یہ بھی، راستے پہ، اک طرف

بیاضِ آرزو بکف

نظر نظر میں نارسا پرستشوں کی داستاں

لرز رہا ہے دم بہ دم

کمانِ ابرواں کا خم

کوئی جب ایک نازِ بے نیاز سے

کتابچوں پہ کھینچتا چلا گیا

حروفِ کج تراش کی لکیر سی

تو تھم گئیں لبوں پہ مسکراہٹیں شریر سی

کسی عظیم شخصیت کی تمکنت

حنائی اگلیوں میں کانپتے ورق پہ جھک گئی

تو زرنگار پلوؤں سے جھانکتی کلائیوں کی تیز نبض رُک گئی

وہ باؤلر، ایک مہ وشوں کے جمگھٹوں میں گِھر گیا

وہ صفحۂ بیاض پر بصد غرور کلکِ گوہریں پھری

حسین کھلکھلاہٹوں کے درمیاں وکٹ گری

میں اجنبی، میں بے نشاں

میں پا بہ گل !

نہ رفعتِ مقام ہے، نہ شہرتِ دوام ہے

یہ لوحِ دل! یہ لوحِ دل !

نہ اِس پہ کوئی نقش ہے، نہ اِس پہ کوئی نام ہے!

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی