Poetry نظم

آج بازار میں پابجولاں چلو

شاعر: فیض احمد فیض

چشمِ نم ، جانِ شوریدہ کافی نہیں
تہمتِ عشقِ پوشیدہ کافی نہیں
آج بازار میں پابہ جولاں چلو
دست افشاں چلو ، مست و رقصاں چلو
خاک بر سر چلو ، خوں بداماں چلو
راہ تکتا ہے سب شہرِ جاناں چلو
حاکم شہر بھی ، مجمعِ عام بھی
تیرِ الزام بھی ، سنگِ دشنام بھی
صبحِ ناشاد بھی ، روزِ ناکام بھی
ان کا دم ساز اپنے سوا کون ہے
شہرِ جاناں میں اب باصفا کون ہے
دستِ قاتل کے شایاں رہا کون ہے

رختِ دل باندھ لو، دل فگارو! چلو
پھر ہمیں قتل ہو آئیں، یارو! چلو

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی