نظم

گٹھڑی ۔۔۔ نظم:یوسف خالد


یوسف خالد
بعد مدت کے اسے دیکھا تو محسوس ہوا
اس کی آنکھوں میں جو اک خواب تھا
وہ خواب ابھی
اس کی پلکوں پہ لرزتے ہوئے اشکوں میں کہیں
ہر نئی صبح گئے وقت کی گٹھری لے کر
ساری دنیا سے الگ بیٹھتا ہے
گٹھڑی کی گرہ کھولتا ہے
اپنے بکھرے ہوئے لمحات کی سب قاشوں کو
اک نئے ربط میں لاتا ہے رفو کرتا ہے
اور اس عالمِ بیداری میں
ان کہے لفظوں کو رک رک کے ادا کرتا ہے
نیند کی دیوی سے ملنے کی دعا کرتا ہے
یوسف خالد

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی