یوسف خالد
بعد مدت کے اسے دیکھا تو محسوس ہوا
اس کی آنکھوں میں جو اک خواب تھا
وہ خواب ابھی
اس کی پلکوں پہ لرزتے ہوئے اشکوں میں کہیں
ہر نئی صبح گئے وقت کی گٹھری لے کر
ساری دنیا سے الگ بیٹھتا ہے
گٹھڑی کی گرہ کھولتا ہے
اپنے بکھرے ہوئے لمحات کی سب قاشوں کو
اک نئے ربط میں لاتا ہے رفو کرتا ہے
اور اس عالمِ بیداری میں
ان کہے لفظوں کو رک رک کے ادا کرتا ہے
نیند کی دیوی سے ملنے کی دعا کرتا ہے
یوسف خالد