نظم

کہاں پر آباد ہے تمہاری دنیا : نواز انبالوی

تجسس کی راہیں اپنائے
اکثر وہ خطوں میں
مجھ سے پوچھتی تھی
اُن لائنوں پر بڑے دائرے بنا کر
کہ کس مکاں کے مکیں ہو تم؟
کہاں پر آباد ہے تمہاری دنیا؟
دنیا ایسی جہاں پہ
خاکبازی مشغلہ نہیں ہے!
جہاں پہ بہاروں کو ثبات ہے حاصل
جہاں کے پھول، پھل اور پیڑ ہیں کامل
جہاں پہ چشمے، نالے اور دریا رواں دواں ہیں
کہکساروں کی سی جبیں پر وہ وادیاں اِس قدر
خوش نما دکھتی ہیں؟
وہ صباحتوں کے ہاتھ میں کوزے خوش نصیبی کے
دل کش نظاروں کی پھدکیاں ایسی ہیں وہاں؟
طائروں کے گیت سہانے ہیں
دن روشن گر ہے کتنا اور رات
کس قدر کہ مستانی ہے
دن میں بلبل نغمہ پرور ہیں کتنے
اور رات کو بازگشت ہے مشغلہ وہاں
بات ان صحراؤں کی تم
یہ بیاں کرتے ہو؟
گرم تپتی ریت ہو
زمیں اگلتی شرر ہو
مگر مسافر کبھی تھکتا نہیں ہے
کہیں کسی طور بھٹکتا نہیں ہے؟
کہاں پر آباد ہے یہ دنیا
محبت کے احساس سے
مزین ہے کیا دنیا؟
جہاں کے باسی روشن خیال ہیں
سراسر خوش حال ہیں
محبت ذات کے
قبیلے ہیں جہاں
محبت، محبت ہی فقط بولتی ہے وہاں؟
مجھے بھی معلوم کرنا ہے
کہاں پر آباد ہے ایسی دنیا؟
مجھے بھی یہ حقیقت جاننی ہے
ہاں! بارہا جاننی ہے

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی