’’کہاں جا رہے ہو؟‘‘
یہ آواز کس کی ہے؟ کس نے کہا ہے؟
وہ چاروں طرف دیکھتا ہے کہ کوئی تو ہو گا
مگر اک گھڑی دو گھڑی کے لیے وہ اکیلا ہے گھر میں
سبھی لوگ گاؤں میں سب سے بدائی کی خاطر گئے ہیں
’’کہاں جا رہے ہو مجھے چھوڑ کر یوں اکیلا؟‘‘
کوئی تو مخاطب ہے اس سے!
سراسیمہ، تنہا، ذرا سہما سہما،
اسے اپنی گونگی زباں جیسے پھر مل گئی ہو
‘‘وہ کہتا ہے، ’’جو کوئی بھی ہو نظر آؤ، میں بھی تودیکھوں
میں چاروں طرف ہوں تمہارے’’
مرے دل کے ٹکڑے،مری آل اولاد، بیٹے
تمہیں کیا مرے دل کی دھڑکن
مرے سانس کا دھیما، کومل سا سرگم
مرے جسم کی عطر آگیں مہک
جیسے صندل کی لکڑی میں بٹنا گھسا ہو….
مرا کچھ بھی کیا تیرے احساس کوجگمگاتا نہیں
،اے مرے دل کے ٹکڑے؟
میں گھر ہوں، مکاں ہی نہیں، تیرا مسکن ہوں، بیٹے
مری چھت کے نیچے ہی پیدا ہوا تھا
یہیں تیری نشاۃ اولیٰ نے تجھ کو جگا کر کہا تھا
ذرا آنکھ کھولو، تمہاری ولادت ہوئی ہے
مگر آج توُ، یوں بدا ہو رہا ہے
‘‘کہ جیسے ترا مجھ سے کوئی تعلق نہیں، میرے بچے؟
سنا اس نے، دیکھا کہ دیوار و در بولتے ہیں
سنا اس نے، دیکھا
کہ کمرے کی چھت بولتی ہے
سنا اس نے، دیکھا
ہوا سنسناتی ہوئی بولتی ہے
سنا اس نے، دیکھا
کہ زینہ اترتی ہوئی دھوپ بھی بولتی ہے
سنا اس نے، دیکھا
کہ پنجرے کی مینا
پھدکتی ہوئی چیختی ہے
کہاں جا رہے ہو؟
سنا اس نے، دیکھا
کہ آنگن کی بیری کی شاخوں میں بیٹھے پرندے
چہکتے نہیں، بس خموشی سے
اس کی طرف دیکھتے ہیں
٭٭٭٭٭٭٭
(یہ نظم کوٹ سارنگ سے ہجرت کے پندرہ برس بعد یعنی 1962میں خلق ہوئی)