نظم

کرچیاں : شازیہ مفتی

شازیہ مفتی
شازیہ مفتی
برسوں پہلے جب بہت دن بعد وہاں گئ تو دیوار میں جڑے آئینے اس کے سامنے رکھی سرمہ دانی کنگھا لپ اسٹک سب گرد سے اٹے تھے ۔ ایک سوال تھا دھندلے پڑتے آئینے سے جھانکتے میرے اپنے عکس کی آنکھوں میں جو قرطاس پر نظم کی صورت ابھر گیا تھا اور آج پھر اس بند کمرے میں گئ برسوں بعد وہاں گرد آلود کرچیاں تھیں فرش پر بکھری اور مانوس آئینے کی جگہ ایک خلا تھا ۔ چند کرچیاں ہاتھوں میں اٹھا لائ اور باقی دل میں پیوست ہوگئیں 💔
نظم 💔
اُسے کیوں چھوڑ آئی تُم ؟
مجھے آئینہ کہتا ہے
اُسے کیوں چھوڑ آئی تم ؟
جو اک کومل سی لڑکی تھی
کہ جس کا منتظر تھا مَیں
وہ آتی تھی
کبھی ہنستی
کبھی روتی
وہ مجھ کو تکتی رہتی تھی
کبھی جب آنکھ کا کاجل
کبھی جب ہونٹ کی لالی
ذرا پھیکے سے ہوتے تھے
مَیں کہتا تھا :
کسی سے رُوٹھ آئی ہو ؟
وہ اپنی ہَنس سی گردن جُھکا کر
اور پلکوں کو اٹھا کر
صِرف تکتی تھی
مجھے تکتی تھی گھنٹوں تک
کبھی جب شوخ ہوتی تھی
تو آنکھوں میں ہزاروں دیپ جلتے تھے
شرارت سے
کبھی وہ رقص کرتی تھی
تو مجھ کو تکتی رہتی تھی
اُسے کیوں چھوڑ آئی تُم ؟
Image may contain: indoor

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی