سعید اشعرؔ
ہم ایسی مسند کے وارث ہیں
جس پر باری باری بیٹھنے والے
ہم میں سے نہیں ہیں
ہم ان لوگوں سے
اپنے مردہ مسخ شدہ بچوں کی خاطر
انصاف کے طالب ہیں
جن کے اپنے بچوں کی ولدیت کے خانے میں
ان کا اپنا نام نہیں
ان کی ازواج کی کوکھوں میں پلنے والے بچے
رنگ اور صورت میں
ان مسخ شدہ بچوں سے ملتے جلتے ہیں
جن کی خاطر
ہم روزانہ دھرنا دیتے ہیں
بینر کے اوپر
آدھا سچ لکھا جاتا ہے
آدھا سچ رات کی تاریکی میں
قہقہہ بن کر اڑ جاتا ہے
شہر میں تیزی سے
ڈینگی پھیل رہا ہے