نظم

پیلے پتے : مسرت عباس ندرالوی


گاوں کا اک کچا سا گهر
گهر کے صحن میں بیری کا اک پیڑ
پیڑ پہ بولتے طوطے
اور ایک مانوس سی آواز
آو نا ؛- دیکهو کتنے بیر چنے ہیں میں نے
سرخ دوپٹہ گلے میں اس کے
کچے پکے ادھ کهائے مٹهی بهر بیر
مجھ کو دیتے ہوئے
وہ طوطوں سے بهی زیادہ چہک رہی تهی
اور اکثر مجھ سے کہتی تهی
تم جب بهی یہ بیری اور چہکتے طوطے دیکهو گے
دیکهنا تم کو یاد آوں گی
اس نے بالکل ٹهیک کہا تها
ایسا ہی ہوتا ہے
میں جب گاوں جاتا ہوں
دیکهتا ہوں بیری کا پیڑ اب پکے گهر کی زینت بنا ہوا
طوطوں کا چہکنا نوحے جیسا لگتا ہے
بیری کا ایک ایک پتا سوگ میں گم
ایسے میں اچانک کہیں سے وہ آ جاتی ہے
میں بے ساختہ ہاتھ آگے کر دیتا ہوں
وہ یہ کہتے ہوئے غائب ہو جاتی ہے
اب میں بیر نہیں چنتی
میں پیلے پتے چنتی ہوں

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی