ڈاکٹرسلمان باقر
ان کے خوشبو میں بسے خط
جو صدیوں سے تھے گم
بند درازوں سے ملے
اور ان میں بہت سے سوکھے ہوئے پھول
مشک و عنبر میں بسے بوسیدہ پھریرے
اور کانچ کی چوڑیوں کے رنگین ٹکڑے نکلے ،
ساتھ میں
بہت سے خط
انگلیاں کاٹ کے
خون محبت سے لکھے بھی ملے ،
کئی خطوں میں
لپ اسٹک سے لگے ہونٹوں کے بوسے بھی ملے ،
ایسی قسمیں بھی ملیں
جن سے افلاطونی محبت کی مہک آتی تھی ،
پیر صاحب سے لئے
ست رنگی دھاگوں کے
عمل تسخیر سے آراستہ ڈورے بھی ملے ،
ایک سرخ لفافے سے پرانا جو خط ملا
اس میں محبت کے بعد پہلی عید کا تحفہ بھی ملا
جس میں لکھا تھا
تو اگر نہ مجھ کو ملا تو ہم زہر کھا لیں گے
تیرے بنا عید جو آئی تو لباس کفن کا پہنیں گے ،
ایک خط کو جو کھولا تو اس میں سے
مور کا پر ملا اور ساتھ میں لکھا تھا
میں تیری مورنی
تو میرا معصوم سا مور
تو مجھے زندگی بھر کے لئے
اپنے رنگین پروں میں چھپا کر رکھ لے ،
پھر ایک لفافہ پھولا ہوا ملا
میں نے لپک کر کھولا جب اسے
اور دیکھ کر میرا دل کانپ گیا ،
اس معصوم محبت سے دل میرا رک سا گیا ،
اس پھولے ہوئے لفافے میں وہ رومال ملا
جس سے آج بھی اس کے حنا ہاتھوں کا لمس آتا ہے ،
جس کو اس نے اپنی اماں سے چھپا کر کاڑھا تھا
ایک کونے پر
سرخ دھاگے سے ،اس نے خود اپنا نام ٹانکا تھا
اس کے گرد محبت میں میرا پورا نام کاڑھا تھا ،
میں نے پوچھا تب کہ ایسا کیوں کیا تم نے
بولی ، پلکوں کو جھکا کے
آنچل کو ہونٹوں میں دبا کے وہ
میں نے خود کو ، آپ کے ہونے کا یہ حصار دیا ،
اور خود کو محفوظ کر کے
آپ کی بانہوں میں عمر بھر کو سونپ دیا ،
ایک خط اور ملا کہ اس کے بعد
کوئی خط نہ ملا
غالباً آخری خط تھا وہ
جس میں صرف اتنا لکھا تھا کہ
آپ کا آخری خط اماں نے پکڑ لیا ہے صبح
اور ان کے بھائی کے بیٹے سے آج شام
میرا نکاح ہونے کو ہے
آپ کہیں تو میں آپ کی دلربا ، بے دام کنیز
آپ کے حکم اور ہلکے سے اشارے کی منتظر یہ کنیز
زہر پھانک لے
یا آپ کے چرنوں میں آ کے پناہ لے لے ،
پھر اندھیروں میں اندھیرے ملے اور پھیل گئے
اور پھر خط والی کا نکاح ہو ہی گیا ، اس رات
تیسری شب اس کی میت کا جنازہ نکلا
اور اس جلوس میت کا آخری روتا بندہ
وہی خط والا تھا
جس کے مدتوں سے بند
درازوں سے آج بھی خوشبو آتی ہے ،
لمس آتا ہے ، پیار کی مہک آتی ہے ۔۔۔ !!!
۔۔۔۔ سلمان باقر ۔۔۔