نظم

وعدہ تھا جن کا ساتھ نبھانے کا تاحیات : سعید عباس سعید

وعدہ تھا جن کا ساتھ نبھانے کا تاحیات
اب مل رہے ہیں یوں کہ ملاتے نہیں ہیں ہات
کاغذ قلم ہے اور میرا کمرہ ہے دوستو
مجھ کو خبر نہیں ہے دن ہے یا پھر ہے رات
بس کچھ دنوں کی بات ہے بدلیں گے روزوشب
ہر دن بنے گا عید سا،ہر شب شب برات
چلوشب کی خامشی میں سجدے کریں ادا
مہکائیں خلوتوں کو مولا سے کر کے بات
خوشیوں کی پھر بہاریں لوٹیں گی اے سعید
امید زیست دے گی ہر ابتلاء کو مات

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی