نظم

وبا کے ختم ہونے تک : فیض محمد صاحب

چلو صاحب چلیں
جنگل میں جہاں
شہر کے غُل سے بہت بہت دور
اک پرسکوں گھر ہو
اُس میں صرف
تنہا میں اور تمہاری یادیں ہوں
پہاڑ چوٹیوں تک
درختوں کے سائے سے ڈھکا ہو
جہاں چرند پرند
اپنی آوازوں سے
امن کے گیت گنگنائیں
سامنے بہتی ندی ہو
اور اس میں بہتی ہوئی
پر خمار لہروں پہ
صدیوں کی تھکن
تھک ہار کر بہہ جائے
میں تمہیں آواز دوں
پتھروں سے ٹکرا کر
مجھے سنائی دے
تم ندی کے اس پار
اپنے گھر کی چھت پر آؤ
جیسے تمہیں کسی نے پکارا ہو
اور میں سمجھوں
تم میری صدا پہ آئے ہو
ہر سو ہریالی نگاہوں میں ڈھنڈک اور
سانسوں میں خوشبو بھر دے
بہت دور چلا جاؤں
ہجوم سے
کچھ دنوں کے لیے
چاہتا ہوں میں
وبا کے ختم ہونے تک

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی