میں آدم زاد ہُوں
یہ بھر بھری مٹی مری پہچان ہے
اور سر پھری وحشی ہَوا میرا حوالہ ہے
مرے اندر کہیں پاتال میں وحشت کے سارے رنگ یکجا ہیں
میں پتھر تو نہیں
پتھر میں تو انکار کی جرات نہیں ہوتی !
مگر میں آج بھی انکار کرتا ہُوں
خود اپنے نصف چہرے کا
سیہ سورج سے رشتہ ہے مرا اُجلی بغاوت کا
مجھے بے رزق چہروں کی دراڑوں میں اُتر کر
چیختی کڑواہٹوں کا زہر بوناہے
تلاشِ رزق میں بندوں کا بے توقیر ہو جانا
دنوں کی روشناٸی کے سیہ تختے پہ یہ ہندسہ نما انسان
جیسے سر کٹے پھرتے ہوں آدھی رات کو ویران گلیوں میں
تعفن زار کالی خوشبوٸیں ڈھلوان سے گِرتی نہیں
ہیجان کے انبوہ پر
بے معنویت کی کُھلی غرّاہٹوں کے برف ساٸے ہیں
مجھے سورج کو بونا ہے
میں لا مرکز نہیں
مجھ کو ہَوا کے بانجھ میں فردا کا ہر موسم سمونا ہے
مٹھاٸی کی دکانوں پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ خالی تھالیوں میں
سرد سنّاٹوں کے اور محرومیوں کے زرد ٹکڑے
آنے والے گاہکوں کے منتظر کیوں ہیں !
اندھیرے راستے میں
اک پچھل پاٸی مرے ہمراہ چلتی ہے
مجھے خبریں سناتی ہے
غروبِ شب کی
خالی بوتلوں میں تیرتے اعضا کی
اور اس شہرِ بے ماتم کی
جس کی موت پر آٸینے چیخوں کی زباں میں ہنس دٸے تھے
شہر والو !
نیند کے کہرام سے جاگو
کہ یہ لمحہ عبادت کا ہے خود کو ڈھونڈنے کا
اور جب سورج نکل آیا
تو اک شعلہ سا بستر میں دبک کر مر گیا تھا ۔۔۔۔۔۔ ،،،،