اے میرے تخئیل،
میرے لفظوں کی ردا اوڑھنے والے
مٹی میں ملا تھوڑا سا صندل کا برادہ
پھر پانی میں یوں گوندھ کہ
مٹی کا مقدر
اس طور سنور جائے
کہ جب چاک پہ آئے
مٹی کو ملے
رنگوں کا ،خوشبو کا لبادہ
یوں مٹی کی رگ رگ میں اتار اپنی ریاضت
حیرت میں ملا حسنِ تیقن کی حلاوت
خوابوں کی حسیں وادی سے لا خواب اٹھا کر
احساس کو پھولوں کی طرح جلوہ نما کر
تجسیم کی ہر پور میں خواہش کی نمو رکھ
جذبے کے حسیں ہونٹوں پہ امرت کا سبو رکھ
شہکار ہو تخلیق ترے دستَ ہنر سے
دے آنچ اسے پیار کا لوبان جلا کر
رکھ اس کے لیے اپنے درو بام سجا کر
اے خواب دریچوں سے مجھے جھانکنے والے
اب میرے حسیں خوابوں کو
مفہوم عطا کر
یوسف خالد