نظم

”مشکل ہے یارو“ : فیض محمد صاحب

 

کل سے اداس بیٹھا ہوں
پھر سے اُس نے الفت کا
ہے اک پیغام بھجوایا
شاید اس کو معلوم نہیں
خود کو بھولنے میں مجھ کو
کتنے برس لگے ہیں اور
اتنے برسوں کے وہ پل
جو اس بن میں نے بیتاۓ ہیں
کوٸی اور ہوتا تو شاید
شاید مر ہی جاتا وہ
ہجر کا دکھ سہنا
اور پھر مسلسل سہنا
آساں نہیں اتنا
اب جب بھول چکا ہوں خود کو
جانے کیوں ؟؟؟
وہ لوٹ آیا ہے !!!
پھر شہر میں میرے
اب کے بار تو پکا ہے
یہ پیغام دوبارہ الفت کا
میری جاں لے کے چھوڑے گا
کیونکہ پھر سے عین وقت پہ
اس نے مجبور ہو ہی جانا ہے
کیونکہ عادت نہیں بدلتی
اور پھر میں ۔۔۔۔۔۔۔
مشکل ہے کہ اس کے بِن
اب کے بار جی پاٶں
مشکل ہے۔۔۔
بہت ہی مشکل ہے یارو

 

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی