نظم

مری وقت گاڑی : ظہیر باقر بلوچ

 

یہ چھوٹا سا غرفہ
یہ چھت پر بنایا گیا ایک گمنام گوشہ
کہ جس میں فقط ایک در ہے
فقط ایک روزن
یہ چھے آٹھ کا ڈمڈمہ
ٹین کی چادروں سے بنایا گیا ہے
دبیز استروں سے سجایا گیا ہے
یہاں اک چٹائی ہے اور ایک کمبل ہے
اور اک پیالہ ہے
کونے میں دو من کا مٹکا پڑا ہے
کتاب ایک مٹکے کے اوپر دھری ہے
یہ میرے خیالوں کی بارہ دری ہے
اسی سے ہیں چودہ طبق میرے روشن
زمیں آسماں کے قلابے ہیں اس میں
یہاں میں فراغت میں آ بیٹھتا ہوں
مگر یہ بنایا گیا اس لئے ہے
کہ ہم اس میں بیٹھیں
جو اس یار زیرک کو فرصت ملے

 

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی