نظم

غمہائے شہرِسیاہ : محمد الفیتوری۔۔۔ اردوترجمہ : اقتدار جاوید


اقتدار جاوید
رات
جب
شہر کی ساری کفناٸی گلیوں میں
سایوں بھرا جال پھیلاتی ہے
دیکھ سکتے ہو تم دیکھ سکتے ہو
لوگوں کو، گہری خموشی سے ڈھانپے ہوٸے
درزیں تکتے ہوٸے، ان کو بھرتے ہوٸے
تم سمجھتے ہو
وہ مطمٸن ہیں، نہیں، آگ میں جل رہے ہیں!
اندھیرا اسی شہر کی گلیوں میں کیسے ہیکل بناتا ہے
کیسی غضبناک ضربیں لگاتا ہے
تب شہر لوگوں کو
بل کھاتے زینے کی جانب بلاتا ہے
۔۔۔۔عہدِ گذشتہ کی جانب
جہاں
عودی خوشبو سے لبریز ساحل ہیں
یادیں پرانی ہیں، جن کو جگانا بھی مشکل ہے
لوگوں کے اندر
تمنا بھری اور لعلوں بھری تازہ دیوار اٹھتی ہے!
جب رات سوتی ہے
شمعیں اٹھاتی ہے
اور دن نکلتا ہے
تب
امن پانی کی موجوں کی صورت
پلٹتا ہے
ناکارہ لگتا ہے، تب شہر کا دل
اسی مسکنِ اوّلیں کی طرف شہر مڑتا ہے۔۔۔یعنی لحد کی طرف
دوپہر کو دہکتا ہے
تنوّر کی طرح
( اندھوں کی خاطر اجالے بڑا لیمپ بنتے ہوٸے)
شہرِ افریقہ کی طرح
نازک عباٶں میں ملبوس عورت کی صورت
تقدس کی خوشبو سے لبریز ہوتا ہے
اک بھیڑ کے سینگ میں
ایک آیت سے منقوش تعویذ میں
اک سیہ فام عورت کے رقصِ برہنہ میں ڈھلتا ہے
آقا گناہوں کی مدہوشی پر زندہ رہتا ہے
آقا کی خاطر
جہازوں کو بھرتے ہیں
ناکتخذا، نوجواں لڑکیوں، ہاتھی دانتوں سے، پرفیومز اور زعفراں سے
جہازوں کو لے جاتے ہیں
دور دیسوں کے آقا کی جانب
جو سارے زمانوں کا آقا ہے
اک باغ ابھرتا ہے
ننگے بدن ڈھانپے جاتے ہیں
ملبوس سلتے ہیں
بہتی ہے اک رو
اسلاف کی طرح پانی کو رنگتے
خدا کے خدو خال رنگتے
سیہ رات
جب شہر کی گلیوں میں
پتھروں کی اٹھاتی ہے باڑھیں
تو یہ لوگ
ہاتھوں کو اوپر اٹھاتے ہیں
سر کو جھکاتے ہیں
ٹھوڑی کے نزدیک لاتے ہیں
اور تم سمجھتے ہو، وہ مطمٸن ہیں
نہیں، آگ ہیں آگ!!!
رات
جب
شہر کی ساری کفناٸی گلیوں میں
سایوں بھرا جال پھیلاتی ہے
دیکھ سکتے ہو تم دیکھ سکتے ہو
لوگوں کو، گہری خموشی سے ڈھانپے ہوٸے
درزیں تکتے ہوٸے، ان کو بھرتے ہوٸے
تم سمجھتے ہو
وہ مطمٸن ہیں، نہیں، آگ میں جل رہے ہیں!
اندھیرا اسی شہر کی گلیوں میں کیسے ہیکل بناتا ہے
کیسی غضبناک ضربیں لگاتا ہے
تب شہر لوگوں کو
بل کھاتے زینے کی جانب بلاتا ہے
۔۔۔۔عہدِ گذشتہ کی جانب
جہاں
عودی خوشبو سے لبریز ساحل ہیں
یادیں پرانی ہیں، جن کو جگانا بھی مشکل ہے
لوگوں کے اندر
تمنا بھری اور لعلوں بھری تازہ دیوار اٹھتی ہے!
جب رات سوتی ہے
شمعیں اٹھاتی ہے
اور دن نکلتا ہے
تب
امن پانی کی موجوں کی صورت
پلٹتا ہے
ناکارہ لگتا ہے، تب شہر کا دل
اسی مسکنِ اوّلیں کی طرف شہر مڑتا ہے۔۔۔یعنی لحد کی طرف
دوپہر کو دہکتا ہے
تنوّر کی طرح
( اندھوں کی خاطر اجالے بڑا لیمپ بنتے ہوٸے)
شہرِ افریقہ کی طرح
نازک عباٶں میں ملبوس عورت کی صورت
تقدس کی خوشبو سے لبریز ہوتا ہے
اک بھیڑ کے سینگ میں
ایک آیت سے منقوش تعویذ میں
اک سیہ فام عورت کے رقصِ برہنہ میں ڈھلتا ہے
آقا گناہوں کی مدہوشی پر زندہ رہتا ہے
آقا کی خاطر
جہازوں کو بھرتے ہیں
ناکتخذا، نوجواں لڑکیوں، ہاتھی دانتوں سے، پرفیومز اور زعفراں سے
جہازوں کو لے جاتے ہیں
دور دیسوں کے آقا کی جانب
جو سارے زمانوں کا آقا ہے
اک باغ ابھرتا ہے
ننگے بدن ڈھانپے جاتے ہیں
ملبوس سلتے ہیں
بہتی ہے اک رو
اسلاف کی طرح پانی کو رنگتے
خدا کے خدو خال رنگتے
سیہ رات
جب شہر کی گلیوں میں
پتھروں کی اٹھاتی ہے باڑیں
تو یہ لوگ
ہاتھوں کو اوپر اٹھاتے ہیں
سر کو جھکاتے ہیں
ٹھوڑی کے نزدیک لاتے ہیں
اور تم سمجھتے ہو، وہ مطمٸن ہیں
نہیں، آگ ہیں آگ!!!
(محمد الفیتوری کاتعلق سوڈان سے ہے ۔ پیداٸش ۔۔۔ نامعلوم 1930ء کا عشرہ ۔۔۔ وفات 2015ء)

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی