نظم

سلاخوں کے اُس طرف : عادل ورد


درندے نوچتے ہیں
ہمیں وحشی درندے نوچتے ہیں
ہم اپنے مختلف سائے بنا کر بھول جاتے ہیں
اندھیرے راستوں میں روشنی نیلام کرتے ہیں
درآمد خواب کے جنجال کرتے ہیں
انہیں اپنے مطابق ڈھالتے ہیں, رنگ بھرتے ہیں
ہمارے جسم جب سرگوشیوں میں بات کرتے ہیں
کہیں لاوا نہیں بہتا!
نہ ہی چقماق سے چنگاریاں بھی جنم لیتی ہیں
ہم اپنی ہی بساوٹ حلق میں محسوس کرتے ہیں
نشے میں جھومتے رہنے کا سستا ڈھونگ کرتے ہیں
ہم اپنے سانحے کو کائناتی مان لیتے ہیں
ہمیں آفات کی پرواہ نہیں ہے کچھ بھی ہو جائے
ہمارا گھر سلامت ہے تو یہ دنیا سلامت ہے
ہماری ذات کی تقسیم بھی کتنی انوکھی ہے
کہیں صحرا, کہیں دریا سمندر آبشاریں ہیں
بہاریں لوٹتے بھنوروں سے بوجھل باغ ہیں اک دو
کہیں پر دشتِ وحشت ہے کہیں تاریک جنگل ہیں
مگر وحشی درندے جنگلوں میں کون لے آیا
عادل ورد

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی