نظم

زمانے سے باہر : ڈاکٹرخورشیدرضوی

زمانی تسلسل میں
مَیں کام کرتا نہیں ہوں
زمانے سے باہر کی رَو چاہیے میرے دل کو
زمانہ تو اِک جزر ہے
مَد تو باہر
کسی لازماں، لامکاں سے اُمڈتا ہے

قطاروں میں لگنے سے حاصل نہیں کچھ
کہ وہ لمحۂ مُنتظر تو
کسی اجنبی سمت سے آتے
دُم دار تارے کی صورت
۔۔۔ جو صدیوں میں آتا ہے ۔۔۔
آئے گا اور اِن قطاروں میں بھٹکے مداروں کو
مقراض کے طور سے
جانبِ عرض میں قطع کرتا نکل جائے گا

زمانے کے اِس بانجھ پَن کا مداوا
اُسی کا رہیں ہے
جدھر دیکھتے ہو
اُدھر کچھ نہیں ہے

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی