نظم

زلزلہ کے بعد کی شام کا منظر : سلمیٰ جیلانی

پرندے گھروں کو لوٹتے دیکھ کر
یاد کے بادل گہرے ہوتے جاتے ہیں
رات ہونے کو ہے
ہم بھی گھر کو چلیں
پر
گھر کہاں ہے
بنانے میں جس کو زمانے لگے
منی کا جھولا ، ننھے کی سائیکل
آنگن میں رات کی رانی کے پودے
مہینے بھر کے پیسے بچا کر
مصری کاٹن کی چادر سے جو بیڈ سجایا
سات عشاریہ آٹھ ری ایکٹر اسکیل کا ایک جھٹکا
پل میں سبھی کچھ زمیں بوس کر گیا
کھلے آسماں تلے ۔۔
اب ٹوٹی اینٹوں کے ڈھیر ہیں
تا حد نظر
بکھرے ہوئے خواب ہیں
(سلمیٰ جیلانی )

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی