پرندے گھروں کو لوٹتے دیکھ کر
یاد کے بادل گہرے ہوتے جاتے ہیں
رات ہونے کو ہے
ہم بھی گھر کو چلیں
پر
گھر کہاں ہے
بنانے میں جس کو زمانے لگے
منی کا جھولا ، ننھے کی سائیکل
آنگن میں رات کی رانی کے پودے
مہینے بھر کے پیسے بچا کر
مصری کاٹن کی چادر سے جو بیڈ سجایا
سات عشاریہ آٹھ ری ایکٹر اسکیل کا ایک جھٹکا
پل میں سبھی کچھ زمیں بوس کر گیا
کھلے آسماں تلے ۔۔
اب ٹوٹی اینٹوں کے ڈھیر ہیں
تا حد نظر
بکھرے ہوئے خواب ہیں
(سلمیٰ جیلانی )