نظم

دیوسائی برف کے لحاف میں ہے !: ڈاکٹرسلمان باقر

سلمان باقر
ڈاکٹرسلمان باقر
لو جی اس سال بھی وہی ہوا
جو پچھلے پچاس سالوں سے میری زندگی میں ہو رہا ہے
اکتوبر آیا اور دیوسائی کے میدانوں میں
آسمان کی وسعتوں سے برف برسنے لگی
بہار نے سردی کی طرف کروٹ لی
سفید ابرق لیحاف اوڑھا
اس کی بے کراں وسعت میں منہ چھپایا
اور دیو سائی سو گئی
اس دن کے انتظار میں کہ جب
پھر بہار آۓ گی
دلکش گرم ہوائیں چلیں گی
تب دیوسائی اپنے بدن سے برف کا کمبل
دھیرے دھیرے اتارے گی
پہلے منہ کھولے گی ، پھر سارا لباس اتارے گی
اس کی خوبصورتی کی حرارت سے
دیوسائی میں رنگ برنگی پھول کھلنے لگیں گے
کالے پانی کا گہرا نیلا دریا
دیوسائی کی چھاتی پر امرت بن کر بہنے لگے گا
بھوری اور کالی جنگلی ٹراؤٹ مچھلیاں
اس برف پانی میں
غوطے لگانے اور تیرنے ، مستیاں کرنے
نہ جانے کن گھپھاؤں سے یکایک آ جائیں گی
شہد کی جنگلی مکھیاں
جتھے کے جتھوں میں آ کر تازہ کھلے پھولوں سے لپٹ جائیں گی
ہر ایک ان کنوارے پھولوں کا رس چوسنے میں پہل کرے گی
اور اس رس کو اپنے شکم میں شہد بنا دے گی
اور اس شہد کو اپنی پشت سے اگل دے گی
جس میں شفا ہی شفا
ذائقہ اور بھینی بھینی خوشبو ہوگی
جھرنے اونچی گھاس کے میدانوں میں رواں ہو جائیں گے
جنات کے نادیدہ بچے
گھاس اور پھولوں میں کھیلتے ، لوٹ لگائیں گے
تب رات میں تارے ایسے چمکیں گے
جیسے وہ دیو سائی کے آسمان سے اتر کر
دیوسائی کے پھولوں کو
چپکے سے چومنے نیچے اتر آۓ ہوں
بادل آئیں گے ، دھواں دھار برسیں گے ، چلے جائیں گے
دن میں دھوپ کی تمازت
ہوش اڑا دے گی ، مگر پھول کھلا دے گی
تب ایسے میں
بھوری ریچھنیاں اپنے بچوں کو لے کر
دیوسائی کے میدانوں میں آئیں گی
مچھلی ، خرگوش اور مارموٹ کا شکار کرنا سکھائیں گی
یہ ان کی پیدائش کے بعد دیو سائی میں پہلا قدم ہوگا
بچے ماں کے پیچھے لڑکھڑاتے قدموں سے
دور دور تک بھاگیں گے
تب ، بھوری ریچھنی ان کو کان سے پکڑ کر محفوظ علاقے میں لاۓ گی
اور شیطان ، بے کہن بچے کی پٹائی کرے گی
آسمان پر میرا ڈرون ان کا پیچھا کرنے لگے گا
وہ ڈرون کو خوف سے دیکھے گی
اور سمجھے گی کہ یہ شیطانی مخلوق
اس کے بچوں کو اٹھانے آئی ہے
یہ سوچتے ہی بھوری ریچھنی
اپنے بلونگڑوں کو دہشت ناک آواز سے پکارے گی
اور واپس تاریک گھپھاؤں میں
اپنے سینے سے لگا کر دبک جاۓ گی
اور اپنا دودھ جھوٹ موٹ میں پلانے لگے گی
حالانکہ وہ کبھی کا خشک ہوچکا ہے
دیوسائی اب عالم خواب میں ہے
برف کا سفید کمبل اوڑھے
دیوسائی بہار کا خواب دیکھنے لگی ہے
اور میں
دیوسائی کو خواب میں دیکھ رہا ہوں ۔۔۔ !!!

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی