سنو!
میں ہر روز یہ گناہ کرتا ہوں
جب تمہاری یادیں
جھنجوڑتی ہیں تو
وہ الوداعی خط
جو تم نے اس شام کے
آخری نامہ بر کے ہاتھ بھیجا تھا
اسی خط کو ہر شب
سوچوں کے اس نگر کے
پرانے کتب خانے میں پڑی ہوئی
پھٹی، پرانی کتاب سے نکال کر
ٹٹولنے بیٹھتا ہوں
امید کے سراغ لگانے لگتا ہوں
پرانی، دیمک زدہ الماری سے سوکھی
دوات اور قلم نکال کر کچھ لکھنا چاہتا ہوں
لمحہء رواں پہ تعاقب بھری نگاہ ڈال کر
پھر سوچتا ہوں!
لکھوں بھی تو کیا لکھوں؟
ترے وصال کی خوش فہمیاں
یا پھر
سینے کو پھاڑتے ہوئے
ہجر کے لمس
اب تمہی بتاؤ!
کہ میری
خوش فہمیاں دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہیں!