نظم

دسمبر کی پہلی نظم : نواز انبالوی


سنو!
میں ہر روز یہ گناہ کرتا ہوں
جب تمہاری یادیں
جھنجوڑتی ہیں تو
وہ الوداعی خط
جو تم نے اس شام کے
آخری نامہ بر کے ہاتھ بھیجا تھا
اسی خط کو ہر شب
سوچوں کے اس نگر کے
پرانے کتب خانے میں پڑی ہوئی
پھٹی، پرانی کتاب سے نکال کر
ٹٹولنے بیٹھتا ہوں
امید کے سراغ لگانے لگتا ہوں
پرانی، دیمک زدہ الماری سے سوکھی
دوات اور قلم نکال کر کچھ لکھنا چاہتا ہوں
لمحہء رواں پہ تعاقب بھری نگاہ ڈال کر
پھر سوچتا ہوں!
لکھوں بھی تو کیا لکھوں؟
ترے وصال کی خوش فہمیاں
یا پھر
سینے کو پھاڑتے ہوئے
ہجر کے لمس
اب تمہی بتاؤ!
کہ میری
خوش فہمیاں دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہیں!

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی