نظم

خدشات کی آنکھ میں پلتی ہوئی کہانی : یوسف خالد

ویران راستے سیاہی مائل راکھ سے اٹے پڑے ہیں
درختوں کی بے برگ شاخوں میں نمی نام کو باقی نہیں
جہاں سبزہ تھا وہاں بے نور بے جان بھربھری مٹی کے ڈھیر لگے ہیں
اپنی شان و شوکت پہ اتراتی آسماں کو چھوتی عمارتیں
ہیبت ناک کھنڈرات کا منظر پیش کر رہی ہیں
ہر طرف جانوروں ، انسانوں اور پرندوں کی باقیات پڑی ہیں
ہوا میں تابکاری کی زہر ناکی بھری ہوئی ہے
جا بجا تاریخ،تہذیب اور تمدن کے بد ہیئت ڈھانچے بکھرے پڑے ہیں
وسیع و عریض تہہ خانوں میں جمع کیا ہوا رزق اور آکسیجن سے بھری ٹینکیوں نے
جنوں آمیز رعونت کی سانسیں ابھی تک بحال رکھی ہوئی ہیں
ایک خوش گمانی
مصنوعی سانسوں کے سہارے زندگی گزارنے والوں کو تسلیاں دینے میں مصروف ہے
کہ زندگی پھر سے ویرانوں کو آباد کرے گی
نئی سحر طلوع ہو گی
مگر مسلسل کم ہوتے ہوئے رزق اور آکسیجن کی کمی نے
موت کا خوف اور مایوسی بڑھا دی ہے
اور دھرتی کی بحالی کے امکانات محدود کر دیے ہیں
فتح اور شکست کے کوئی معنی نہیں رہے
دھرتی کی چھاتی پر اپنی عظمت ،اپنی ہیبت اور اپنی حکمرانی کا جھنڈا لہرانے والے
سوئے فلک دیکھ رہے ہیں
کہ کہیں سے زندگی کے بانجھ پن کے لیے آبِ حیات اترے
سماوی نعمتوں کا نزول ہو
سبز و گل کی حکمرانی ہو
پرندے پھر سے چہچہانے لگ جائیں
احساسِ زیاں کی کوکھ سے پھر کوئی امید کی کونپل پھوٹے

younus khayyal

About Author

4 Comments

  1. گمنام

    جولائی 23, 2021

    سبحان اللہ کیا بات ہے آپ کی انتہائی شاندار

  2. گمنام

    جولائی 23, 2021

    خوبصورت

  3. اقتدار جاوید

    جولائی 23, 2021

    خوبصورت

  4. play mini baccarat online

    جولائی 23, 2021

    […] online craps apple […]

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی