نظم

تیز نمک : سعیداشعرؔ

سعید اشعر
سعیداشعرؔ
میری باتوں میں
چاٹ کا چٹخارا ہے
وہ چسکے لے لے کر سنتی ہے
میں یہ سمجھتا ہوں
مجھ پر مرتی ہے
مرنے والے خوابوں میں آتے ہیں
زندہ ہو کر
کبھی ڈراتے
کبھی ہنساتے ہیں
ندیوں اور پہاڑوں کی سیر
رنگوں میں گھل مل جانا
بادل کے گالوں میں رستہ بن جانا
چاند ستاروں کی جانب اڑنا
کسی انجانے بدن کی لذّت
معمولی باتیں ہیں
خوابوں کی ان دیکھی دنیا کا نقشہ
کچھ بھی ہو سکتا ہے
منظر میں
کانٹے،
آگ اور اڑتی راکھ
بد روحوں کے ناچ
پھٹتی ہوئی کوئی زمین
پیچھا کرتا کوئی سایا
آنکھوں کی سرخی
کچھ بھی ہو سکتا ہے
سوتے میں کوئی ارادہ
اپنا نہیں رہتا
سب کو کھٹا میٹھا اچھا لگتا ہے
کوئی سپنا
سپنا نہیں رہتا
کوئی اپنا
اپنا نہیں رہتا

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی