نظم

تیرا رقص دکھائی دے گا : سعیداشعر

سعید اشعر
ہم دونوں صحرا کی وسعت میں
اک دوجے سے
بچھڑ گئے تھے
تپتی ریت پہ چلتے چلتے
پاؤں جھلسا گئے ہیں
سورج کی کرنیں
آنکھوں کا رس چوس رہی ہیں
منہ میں کڑواہٹ کے کانٹے چبھنے لگے ہیں
ریت کی ضربوں سے
ہونٹوں کی رنگت
بنجر مٹی کا عکس
گالوں پر
سوکھی ندیا کے آثار دکھائی دیتے ہیں
میں اب تک زندہ ہوں
بھاری قدموں سے
اک نامعلوم اشارے پر
کسی نخلستان کی جانب بڑھنے کی کوشش میں
مجھ کو زندہ رہنا ہے
گھنے درختوں کے سائے میں
میری خاطر
اک ٹھنڈے میٹھے پانی کا چشمہ ہے
کیسے وہاں پہنچوں
اس پانی میں
موجوں کا رقص دکھائی دے گا
تیرا عکس دکھائی دے گا
مجھ میں
تیرا رقص دکھائی دے گا

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی