اقتدار جاوید
کسی کو پتہ تک نہیں تھا
کہ
کب پیدا ہونا ہے میں نے
وہ ممتاز کی حدّت سے لبریز رہتا ھوا شیرِ مادر
جسے جان کے دشمنوں نے المناک یاداشت سے بھر دیا
میں نے خود کو
خود اپنے ہی ساٸے پہ پھینکا
کہ خود کو بچا لوں
بچا لوں میں اس تیز گاڑی سے
میری طرف جو امنڈتی چلی آغا رہی تھی!
میں سینے کو آگے بڑھاتا ہوں
تا کہ
غضبناک بھالا
کہیں وسط میں آ کے پیوست ہو
جیسے سینہ بزرگوں کی خاطر اٹھی ڈھال ہو
میں پہاڑوں پہ چلتا ہوں
جیسے کوٸی سبز ساحل پہ چلتا ہے
گہرےسمندر ہیں
سُونے پہاڑ
اور چمکدار موتی ہیں غار
پیڑ کی چھال کے نیچے
دیوار ہے
جب میں دیوار چھوتا ہوں
جیسے فنا ہونے لگتا ہوں
بوڑھی چٹانوں پہ میں بیٹھتا ہوں
یہ اڑتی ہیں
پر
ان کے جیسے نکلتے ہیں
آخر کہاں جاٶں میں
ایک بالوں کی لِٹ کی طرح
میں ہواٶں میں اڑتا ہوں
میری محبت دو حصّوں میں تقسیم ہوتی ہے
میناروں میں
نام میرے خدا کا لرزتا ہے
یا گھوڑوں کی پیٹھ پر کوٸی کوڑا برستا ہے
میرے جنم کی کسی کو خبر تک نہیں تھی
مجھے کس علاقے کے دریا نے باہر اچھالا ہے
کیسی زمیں میں دھنسا
کس عدم میں دھکیلا گیا ہوں
بخارات کی طرح اڑتا ہوں
گرتا ہوں۔۔۔۔۔خالص ہوں
جب میں زمیں چھونے لگتا ہوں
جیسے زمیں کا بدن پھول جاتا ہے
( جیسے زمیں حاملہ ہو)
میں کہتا ہوں
مت دو جنم مجھ کو
عماّنی ہوں ۔۔۔۔۔ایک عماّنی کو مت جنم دو
محبت کا مارا ہوا ایک عماّنی
کہتا ہے
کیسے صدی یوں طویل ہوتی جاتی ہے
جشنِ مسرّت میں مستی بھرا ایک عماّنی گاتا ہے
کہتا ہے
ہنسی کے بھرو تابعداری کے گھونٹ
اک غبارہ ہواٶں میں اڑتا ہے
اونچے فلک کے کنارے کسی کو بلاتے ہوٸے اڑتا جاتا ہے
عبداللہ ریامی
قاہرہ
(پیداٸش 1965)