نظم

بکھر گئے ہیں سب رنگ : شازیہ مفتی

شازیہ مفتی
شازیہ مفتی
کیسا ظالم مینہہ برسا ہے
میری اوڑھنی
کچّے رنگوں سے رنگی دھنک کے
سمے کے کچّے دھاگوں سے بُنی
بھیگ چلی ہے
اور بہہ گئے سارے رنگ
کیا
اِن کچّے رنگوں اور ٹوٹے دھاگوں کے کھوجی
تم کو میرے گھر کی راہ سُجھا دیں گے ؟
یا
اک ململ کی بے رنگ اوڑھنی
کچّے رنگ اور کچّے دھاگے
پھر سے ساتھ مِرے
میری تنہا
بے رنگی بِن دستک کی کالی راتوں میں ساتھی ہوں گے
کیا تم مجھ کو ڈھونڈ سکو گی
اے مجھ سے گریزاں زندگی !
( شازیہؔ مفتی )

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی