نظم

" بالی بھولی گڑیا" : نوازانبالوی


ہاتھ میں آئینہ ہے
وقت کی لرزشوں سے
جس کے کنارے چاروں جانب سے
باریک کرچیوں میں بٹ رہے ہیں
وہ بالی بھولی گڑیا
مفلسی کی ماری ہوئی
مسلسل
آئینے میں دیکھتی ہی چلی جارہی ہے
کبھی ماتھے کے جھومر کو درست کرتی ہے
کبھی گالوں کے دائیں جانب
تو کبھی بائیں جانب نظر ڈالتی ہے
کبھی پلکوں کو اٹھا اٹھا کے دیکھتی ہے
کبھی آنکھوں کے گرد سیاہ ہلکوں کی نمائش دیکھتی ہے
چہرے پہ زرد دھبوں کو کریدتی ہے
ٹھوڈی کے پاس کے تل کو مٹا کے دیکھتی ہے
نہ جانے وہ کس کھوج میں لگی ہوئی ہے
روح کو چین نہ پڑنے پر وہ اٹھتی ہے
آئینے کو تکیے کے نیچے رکھ کر
اضطرابی میں سیڑھیوں کی جانب لپکتی ہے
پھر سامنے کے مناظر کے
ان پری چہروں کو تصور میں لاتی ہے
وہ جو پیسے کی گود میں پل پھول رہے ہیں
ان چہروں سے یکے بعد موازنہ کرتی ہے
وہ جاننا چاہتی ہے
سبب اپنی پامالی کا
اسے جستجو بس اُسی بات کی ہے
بات وہ جو
ظاہر ہونے سے گریز کر رہی ہے
بات وہ جو خود فریبی کی تیہوں میں
لپٹی ہوئی ہے
کوئی ہے خدا کا بندہ
جو اس پوشیدہ رمز کو
ان تیہوں سے نکالے
اور اس غریب لاچار کے
آنسو پونچھے
میں آپ ہی سے مخاطب ہوں
ہے کوئی اس خدا کی بستی میں ؟

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی