بساطِ ارض پر
فطرت کی بو قلمونیاں
جلوہ فگن ہیں
کہیں جنگل ،کہیں صحرا ،کہیں بیلے
کہیں منہ زور دریا ہیں
کہیں گہرے سمندر ہیں
کہیں کہسار ہیں
جن کے بطن سے پھوٹتے چشمے ہیں
سندر گنگناتی آبشاریں ہیں
کہیں شفاف ندیاں وادیوں میں
کھلتے پھولوں ،ننھی کلیوں میں
نمو تقسیم کرنے کی ریاضت میں مگن ہیں
اور اک جانب
حیاتِ جاں فزا کے لطف سے محروم
ہم ہیں
اور ہم پر کُھل چکا ہے
کہ ہمیں اپنے مسائل سے کبھی بھی رستگاری مل نہیں سکتی
مسائل کی گرہیں کیسے کھلیں گی
ہم نے یہ گرہیں مسلسل ڈالتے رہنے میں
اپنی عمر کی پونجی گنوائی ہے
مسائل سے ہمارا رابطہ کافی پرانا ہے
مسائل سے جڑے سب درد و غم
ہم کو عزیز اتنے ہیں کہ ہم نے
سجل سینے کی بھٹی میں انہیں رکھ کر
سلگنے کے لیے
تن کی حرات دان کر دی ہے
مسائل کے سلگنے اور اس نیم آتشہ
ماحول سے اٹھتے ہوئے کالے دھوئیں کو
خوش دلی سے
خواب کے سارے مناظر میلے کرنے
اور
صباحت آشنا احساس کو پامال کرنے
آس کی پگڈنڈیوں پہ اگنے والے سبزہ و گل کو
ہمیشہ کے لیے ناپید کرنے کا خصوصی اذن بخشا ہے
ہمیں اب رنگ،خوشبو، سُر
لطافت سے بھری رعنائیاں اچھی نہیں لگتیں
ہمیں یہ الجھنیں ،بے تابیاں
اور مستقل آزار کی سب صورتیں راس آ گئی ہیں
rizwanafarooq385@gmail.com
جولائی 27, 2020واہ واہ حسین حروف اور مفہوم بامعنی کیا بات ہے.حسن کا جھرنا اور معنویت دونوں انتہا پر
یوسف خالد
جولائی 27, 2020بہت شکریہ جی سلامتی ہو
Rizwanafarooq385@gmail.com
جولائی 27, 2020Wah
گمنام
جولائی 27, 2020کیا ہی عمدہ نظم ۔۔
نظم کی بنت اور موضوع دونوں خوبصورت
نیلم ملک
جولائی 27, 2020نہایت عمدہ نظم ہے
نظم کی بُنت اور موضوع دونوں قابلِ تحسین
نسرین سید
جولائی 27, 2020انسانی المیے کو درشاتی رواں دواں خوبصورت نظم ۔۔ کیا کہنے ۔۔۔
گمنام
جولائی 27, 2020انسانی المیے پر لکھی گئی خوبصورت اور رواں دواں نظم ۔۔ واااہ
Nasreen Syed
جولائی 27, 2020انسانی المیے پر لکھی گئی خوبصورت اور رواں دواں نظم ۔۔ واااہ