نظم

ایک امید 70سال پرانی : عادل ورد


ذرا دیر ٹھہرو
اے ننھے پرندو!
کہ جس نے بھی سورج کو زنجیر ڈالی
تمہارے پروں پہ ہے تیزاب پھینکا
ہواؤں میں شامل کیا زہرِقاتل
ابھی جان لیں گے
ہماری تمہاری کئی سال پہلے کی یادوں کا منبع
محلے کا وہ بوڑھا پیپل کہ جس نے
تمہیں ۔۔۔۔۔ تپتی دھوپوں میں سایہ دیا تھا
آندھیوں،بارشوں میں ٹھکانہ دیا تھا
ہمیں ۔۔۔۔۔۔۔ اپنی بانہوں میں جھولے دیے تھے
ہے جس نے گرایا
ابھی کھوج لیں گے!!
یہ جس نے بھی بستوں میں پستول ڈالے
اداسی اور نفرت کے تعویذ گھولے
ابھی ڈھونڈ لیں گے
ذرا دیر ٹھہرو!
ابھی ہجرتوں کے وہ موسم نہیں ہیں
یہاں اب بہاروں کی آمد کے دن ہیں

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی