نظم

آپ کا نام پکارا گیا ہے : ستیہ پال آنند

دھندھ ہے چاروں طرف پھیلی ہوئی
میں بھی اس دھندھ کا کمبل اوڑھے
سر کو نیوڑھائے ہوئے بیٹھا ہوں
میں اکیلا ہی نہیں ہوںکہ یہاں اور بھی ہیں
منتظر اپنے بُلاوے کے لیے
لپٹے لپٹائے ہوئے’خود ‘ میں
اکیلے، چپ چاپ
جامد و ساکت و بے جان بتوں کی مانند
سر کو نیوڑھائے ہوئے بیٹھے ہیں!
کچھ سے برسوں کی شناسائی ہے
میرے ہم عمر ہیں، میں جانتا ہوں
برق رفتار تھے سب بادیہ پیمائی میں
میری ہی طرح قدم زن تھے، سبک رو تھے یہ لوگ!
آج گم صم سے یہاں بیٹھے ہیں
خستہ، درماندہ، تھکے ہارے، نڈھال
سانس پھولے ہوئے، بے دم ، ہلکان
میری ہی طرح جفا کش تھے، جیالے تھے یہ لوگ!
کہیں پیچھے سے کوئی کندھا ہلاتا ہے مرا
اور تاکید سے کہتا ہے، ’’حضور اٹھئے تو
آپ کا نام پکارا گیا ہے

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی