ذہنی صحت اور خوشی ہم سے ہر فرد کی بنیادی ضرورت ہے۔ہمارا ذہین ایک طاقتور چیز ہے۔جب ہم اپنے دل ودماغ میں نیکی اورمثبت عناصر بھر کر مثبت افعال میں مشغول ہوتے ہیں تو ہماری حالت قدرتی طور پر بہترہوناشروع ہوجاتی ہے۔ذہنی سکون،اندرونی خوشی اورطمانیت قلبی کا سبب بننے والے ہمارےدماغ کے چار اہم کیمیکلز، ڈوپامین سیروٹونن، آکسیٹوسن اور اینڈورفنز ہیں۔یہ چاروں انسان کے مزاج کو کنٹرول کرنے اور اسے خوشی فراہم کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ ڈوپامین، دماغ کے ایک چھوٹےسے حصےہائپوتھیلمس میں تیار ہوتاہے۔ دماغ میں ڈوپامین کی موجودگی سے حوصلہ افزائی،تحریک،یادداشت،موڈ، نیند، اور رویے کو بہتر بنانے میں بہت مدد ملتی ہے۔ڈوپامائن کےبرعکس سیروٹونن کی زیادہ مقدار دماغ کے بجائے،ہماری آنتوں میں ذخیرہ ہوتی ہے۔یہ کیمیکل ہمارے مزاج، جسمانی درجہ ءحرارت اوربھوک کو کنٹرول کرنے میں مدد کرتا ہے۔اسی طرح جنسی عمل کے لیے جسم میں آکسیٹوسن اور اینڈورفنز جیسے ہارمونز متحرک ہوتے ہیں جو انسان کے تناؤ کو کم کرنے اور اس میں لطف ومرحمت کے جذبات پیدا کرتے ہیں۔آکسیٹوسن سونے میں مدد کرنے کا اضافی فائدہ بھی دیتاہے۔انسانی دماغ اور آنتوں میں ان کیمیکلز کی مقدار کو متوازن رکھنے کے لیے بازار میں ادویات دستیاب ہیں لیکن اس کا فطری حل ادویات کی نسبت بہتر اور پائیدار ثابت ہوتا ہے۔یونیورسٹی آف پنسلوانیا کےمحققین کی جانب سے کی گئی ایک تحقیق میں کئی دیگر عوامل کے ساتھ یہ بھی بتایا گیا کہ ہے کہ عبادت کرنے اور دعا مانگنے سے انسانی دماغ میں ڈوپامین کی سطح بڑھ جاتی ہے۔جہاں تک عبادات کا تعلق ہے یہ اینٹی ڈپریسنٹس کی طرح انسان کو سکون آور کیفیت میں لے جانے کے لیے بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ نماز،روزہ،حج،زکوۃ،صدقات،تسبیحات اور جملہ عبادات کےانسانی زندگی پرگہرےاثرات مرتب ہوتے اورثمرات حاصل ہوتےہیں۔اسی طرح روزانہ کم از کم آدھے گھنٹے کی باقاعدہ ورزش بھی ڈوپامین کی مقدار کو بڑھا کر ہمارے مجموعی مزاج کو بہتر بناتی ہے۔پچھلی نسلوں میں، انسان اپنا زیادہ تر وقت گھر سے باہرگزارا کرتا تھا۔آج بھی فطرت کے نزدیک اور قدرتی ماحول میں رہنے والے نسبتاً زیادہ خوش کن اورصحت مند زندگی گزارتے ہیں۔ہمارامعاشرتی تعامل بھی صحت برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ سادہ اور غذائیت سے بھرپور خوراک بھی ڈوپامین کے فطری توازن اور اخراج کا سبب بنتی ہے۔اسی طرح تنہائی میں مراقبہ کرنا،اپنوں کے ساتھ خوش گوار تعلقات اور خوشگوار یادیں انسان میں ڈوپامین پیدا کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ہم میں سے ہرشخص جب بھی کسی دوسرےکے لیے فائدہ مند برتاؤ کے عمل میں مشغول ہوتا ہے تو ڈوپامین کا خروج اندرونی خوشی کےانعام صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔اس کا باربار اخراج دوسروں سے اچھے برتاؤکے طرز عمل کو دہرانے کی ترغیب دیتاہے۔تحقیق کے مطابق انسانی زندگی میں مثبت افعال،انسانی فلاح وترقی کے کاموں میں شمولیت کے جذبات کو بڑھاتے ہیں۔اس سے خوشی محسوس کرنےکا ہمارا،نظام ڈوپامین کی موجودگی میں متحرک ہو کر ایک طرح کی ذہنی آسودگی اور طمانیت قلبی کا سبب بنتا ہے۔ڈوپامین اس وقت بھی خارج ہوکر خوشی فراہم کرتا ہےجب ہم اپنا کوئی مقصد حاصل کرلیتے ہیں یا ہمیں اپنی پسندیدہ چیز مل جاتی ہے۔ایک مقصد کے بعد دوسرے مقصد کے حصول کی جانب کاوش سے مزید ڈوپامین پیدا ہوتا رہتا ہے۔بڑے بڑے اہداف کی تلاش اور ان کا حصول بھی عام طور پر بڑھتے ہوئی ڈوپامین کی علامت ہے۔ تاہم، کامیابی کے اپنے امکانات کو بہتر بنانے کے لیے چھوٹے اہداف کے ساتھ شروع کرنا بہتر ثابت ہوتا ہے۔تزکیہ نفس سے انسانی زندگی میں ترتیب و تنظیم پیدا ہوتی ہے اور زندگی میں راحت واطمینان پھیل جاتا ہے۔اگر یہ نہ ہو تو انسان ہر وقت غصے،اعصابی تناؤ،شکست و ریخت کے احساس کے ساتھ اور معاشرے سے الگ تھلگ ہو کرزندگی گزارنے پر مجبور ہوجائے۔روزہ اورحج دو ایسی عبادات ہیں جن میں محنت و مشقت بھی شامل ہے۔روزے کی حالت میں مسلسل ایک ماہ تک بھوک،پیاس برداشت کرنا پڑتی ہے۔پھرتلاوت و تراویح کا اہتمام بھی محنت طلب کام ہے۔جب کہ حج میں پیدل چلنے اور دیگر عبادات کے ساتھ خود کو بعض پابندیوں میں رکھنے کی مشقت برداشت کرنا پڑتی ہے۔ان عبادات کوبہ احسن وخوبی انجام دینے سے جو صالحیت پیدا ہوتی ہے،اس کا تو اجر صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے لیکن ان سےاللہ تعالیٰ اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گہرا تعلق اور محبت پیداہوتی ہے۔یقین کی دولت ہاتھ آتی ہے اورخود اعتمادی، نرم دلی،اورصحت مند زندگی نصیب ہوتی ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں ۔اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو شفا قرار دیا ہے۔یہ شفا جسمانی وروحانی عوارض سب کے لیے ہےیعنی گناہوں کی بیماریوں سے بچنا اور شفایاب ہونا بھی مراد ہے اور قرآن کریم کی تلاوت سے جسمانی بیماریوں سے بھی نجات مل جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ سورہ رحمٰن کی تلاوت سن کر اور قرآن مجید کی تلاوت کر کے بے شمار مریض شفایاب ہوتے آئے ہیں۔قران میں موجود آیات شفا کی تلاوت کرنا اور سننا بھی بہت زیادہ فائدہ مند ہے۔قران حکیم میں اس زندگی اورنعمتوں پر اللہ کا بہت زیادہ شکر ادا کرنے پر زور دیا گیا ہے اور یہ وعید بھی سنائی گئی ہےکہ شکر ادا کرنے والوں کو ہم اور زیادہ نوازتے ہیں۔دیگر معاملات زندگی میں دوسرے انسانوں سے ملنے والے فوائد کے بعد بھی ہم ان کا جو شکریہ ادا کرتے ہیں اس کا زیادہ فائدہ ہمیں ہی ہوتا ہے۔تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اظہارتشکر، ڈوپامین اورسیروٹونن کے اخراج کو بڑھادیتا ہے۔دراصل اظہار تشکر ہمیں مثبت جذبات سےبھر دیتا ہے۔جس سے ہمارے ذہنی اطمینان وسکون میں اضافہ ہوتا ہے۔ڈوپامین چونکہ موڈ اور پٹھوں کی حرکت کو منظم کرتا ہے اور دماغی خوشی اور کسی چیز پانے کے احساس کے نظام کی فعالیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے،اس لیے انسان کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ ادویات سے یہ کیمکل پورا کرنے کے بجائے تمام فطری ذرائع بروے کار لائے۔ انسان اپنی حاصل کردہ نعمتوں اور صحت پر رب العالمین کا جتنا زیادہ شکر ادا کرتا رہے گااوراس کے جسم میں ان کیمیکلز کی مقدار بھی قدرتی طور پر پوری ہوتی رہے گی۔اسی لیے کہا جاتا ہے کہ شکرگزاری بہترین صحت کی ایسی انشورنس ہے جس میں روزانہ جمع ہونے والا شکر کا پیسہ، بیماریوں اور مصیبتوں سے بچاؤ اور ہماری قابل رشک صحت کی ضمانت بن جاتا ہے۔
گمنام
مئی 4, 2022Great 🥰
اسدمصطفیٰ
مئی 4, 2022ڈاکٹر یونس خیال صاحب ۔۔۔کالم شائع کرنے کا شکریہ
Farheen
مئی 4, 2022Nice