کالم

آہ! پروفیسرفرحت محبوب : کلیم احسان بٹ

گجرات میں اردو پڑھانے والوں اور شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کی کمی نہیں لیکن مزاج کی ہم آہنگی کے باعث پروفیسر منیر الحق کعبی۔پروفیسر شاہین مفتی۔پروفیسر سلمی ہما۔پروفیسر فرحت اور میں ایک دائمی رشتہ احترام و محبت میں بندھ گئے۔ہمارے مزاج میں آخر وہ کیا تھا جس نے ہمیں یوں جوڑ دیا یہ کبھی سوچا نہ تھا لیکن آج جب پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو شعر و ادب میں دلچسپی کے علاوہ اور بہت کچھ بھی مشترک نظر آتا ہے۔
ہم سب حالات کی کشاکش یا تندی باد مخالف میں اڑنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ہماری تمام نوکری انتظامیہ سے پنگھے لیتے اور اپنی رائے پر ڈٹے رہنے کے واقعات سے بھری ہوئی ہے۔ ہم سب کے پیچھے کوئی سیاسی و انتظامی قوت نہیں بلکہ کردار کی طاقت رہی ہے۔
ہم سب بظاہر لاابالی اور غیر ذمہ دار نظر آنے کے باوجود اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں اپنے بہت سے دوستوں کی بسبت زیادہ سنجیدہ رہے ہیں۔ ہم سب انتظامیہ کے معتوب اور اپنے طالب علموں کے محبوب رہے ہیں اور سب سے بڑھ کر نا موافق حالات میں کسی کا حوصلہ نہیں ٹوٹا اور ہماری طبع کی شگفتگی مسائل کو خندہ پیشانی سے نبرد آزما ہونے کی طاقت نے مسائل پیدا کرنے والوں کو ہمیشہ پریشان رکھا۔
شاہین مفتی سلمی ہما اور منیر الحق کعبی اساتذہ میں تھے میں اور فرحت محبوب ان کے شاگردوں میں۔ ہم سب میں صرف فرحت محبوب لکھنے لکھانے کی علت سے محفوظ تھیں باقی سب گرفتار زنجیر علم و ادب تھے لیکن اس کے باوجود مجھے اعتراف ہے کہ جو شخصیت علم و ادب کی چلتی پھرتی تصویر تھی وہ مس فرحت محبوب تھیں۔
آپ 1960 کے لگ بھگ ہیدا ہوئیں۔ اس سال انہیں ریٹائر ہو جانا تھا۔ آپ کے والد محبوب بیگ علاقہ کی معروف سماجی و سیاسی شخصیت تھے۔انہوں نے اپنی اولا کی تربیت میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔بیٹیوں نے بالخصوص باپ کی شفقت اور علم دوستی سے فائدہ اٹھایا۔فاخرہ محبوب لاہور میں مصروف ترین ڈاکٹروں میں سے تھیں۔ کچھ عرصہ قبل ہی ان کا انتقال ہوا۔ شاہدہ محبوب انگریزی کی مقبول استاد تھیں اور فرحت اردو کے استاد اور بعد ازاں پرنسپل کے طور خدمات سر انجام دیتی رہیں۔
فرحت محبوب بنیادی طور پر سائنس کی طالبہ تھیں مگر انٹر میڈیٹ میں میرٹ پر نہ آ سکیں۔ دوسری طرف شاہین مفتی جو ان کی اردو کی استاد تھیں اور اس وقت شعبہ تعلیم میں تازہ وارد ہوئی تھیں کی محبت نے اپنی طرف کھینچا اور بی اے میں اردو مضمون رکھ لیا۔ پھر شاہین مفتی کی محبت اور اردو ان کا مستقل اثاثہ ٹھہرے اور وہ ایم اے اردو کر کے گورنمنٹ ڈگری کالج برائے خواتین مرغزار کالج گجرات آ گئیں۔اور اپنے سفر آخرت تک یہیں ٹکی رہیں۔
بطور استاد وہ اپنے طالب علموں میں بہت مقبول تھیں۔ شاعر ادیب نہیں تھیں لیکن شعر فہم اور ادب شناس تھیں سو اردو مضمون کو جس محبت اور دلچسپی سے پڑھاتی تھیں مضمون اور استاد دونوں طالبات کے دلوں میں گھر کر جاتے۔
وہ نہ صرف خوش شکل تھیں بلکہ خوش گفتار و خوش کردار بھی تھیں سو رفقائے کار میں بھی برابر مقبول تھیں۔
بطور پرنسپل وہ سخت گیر اور نظم و نسق کی زبردست پابند تھیں۔وہ میڈم شاہین مفتی اور عذرا غنی جیسی شخصیات کی سیٹ پر براجمان تھیں لیکن ان کے حسن انتظام نے ثابت کیا کہ انہوں نے اس وراثت کو سنبھالا ہی نہیں اس میں قابلِ قدر اضافہ بھی کیا۔ کالج صفائی اور خوبصورتی کے حوالے سے پہلے بھی مثالی تھا لیکن وہاں جاتے ہی احساس ہوتا تھا کہ پہلے سے زیادہ صاف اور خوب صورت ہے۔
عذرا غنی اور شاہین مفتی کی نظم و نسق کی سختی بھی مثالی تھی لیکن اب یہ زیادہ بار آور لگتا تھا۔
میرے ایک دوست نے جس کی بیوی مرغزار کالج پڑھاتی تھیں نے فون کیا کہ اس کی بیگم کی کبھی کبھار چھٹی زیادہ کرنا پڑتی ہے لیکن میڈم کی سختی کی وجہ سے بڑی پریشانی ہے آپ میڈم سے مل کر اس کی سفارش کر دیں کہ ذرا ہتھ ہولا رکھیں۔ میں نے بھابی سے پوچھا کہ کیا معاملہ ہے تو بولیں چھٹی تو پہلے بھی کرتی تھی اور میڈم شاہین مفتی بھی ڈانٹتی تھیں لیکن ان کی ڈانٹ سے تکلیف نہیں ہوتی تھی بلکہ ہنسی خوشی برداشت ہو جاتی تھی مگر جب یہ ڈانٹتی ہیں تو ان کے الفاظ کی نشتریت سے گھنٹوں آنسو ہی نہیں رکتے۔
میں نے جا کر انہیں کہا تو بھر پور قہقہہ لگایا اور کہا ایسا کچھ نہیں ہے لیکن چھٹی سے طالبات کا جو نقصان ہوتا اور نظم و نسق کے جو مسائل پیدا ہوتے ہیں ان کا تمہیں اسی وقت پتہ چلے گا جب تم پرنسپل بنو گے۔پھر یوں ہوا کہ میں بھی پرنسپل بن گیا۔ ایک دفعہ ان کا فون آیا کہ پریکٹیکل کے نمبروں کے لیے فلاں آدمی آپ کے پاس آئے گا۔ اس نے بہت تنگ کیا ہوا ہے اس کو یہ بتا دینا کہ میں نے آپ کو فون کیا تھا کام کرنا یہ نہ کرنا آپ کی صوابدید پر ہے۔
فرحت محبوب صرف محبوب استاد رفیق کار اور منتظم ہی نہیں تھیں بلکہ عام زندگی میں بھی بہت پسندیدہ تھیں ان کے خاندان میں چھوٹے بڑے سب ان سے بہت پیار کرتے تھے۔ وہ ہر کسی کے کام آنے والی اور ہمدرد شخصیت تھیں۔ان کا حلقہ احباب ان کا خاندان ان کے علاقے کے افراد ان کی وفات پر یکساں دکھی ہیں۔میرا دکھ اس لیے زیادہ ہے کہ ان کا بھائی عالمگیر میرا بہت اچھا دوست ہے میری چھوٹی بہن ان کے ماموں زاد کی بیوی ہے وہ میرے شہر کی آبرو تھیں وہ اسی مضمون کی استاد تھیں جس کا میں ہوں لیکن سب سے زیادہ اس لیے کہ میری خاک کے خمیر میں بہت کچھ ویسا ہے جو ان کی خاک کے خمیر میں تھا۔ یوں لگتا ہے صرف وہ نہیں مریں میرے اندر کی کوئی دیوار منہدم ہو گئی ہے۔

(بشکریہ ’’اذکار‘‘راولبنڈی)

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

کالم

ترقی یا پروموشن ۔۔۔۔ خوش قسمتی یا کچھ اور

  • جولائی 11, 2019
ترجمہ : حمیداللہ خٹک کون ہے جوزندگی میں ترقی نہ چاہتاہو؟ تقریباًہرفرد ترقی کی زینے پر چڑھنے کا خواب دیکھتا
کالم

کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالی

  • اگست 6, 2019
از : یوسف خالد کشمیر جل رہا ہے اور دنیا بے حسی کی تصویر بنی ہوئی ہے — دنیا کی