کالم

ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں : ناصر علی سید

ہمہ وقت ادب سے جڑے رہنا مجھے بے حدسرشار رکھتا ہے یہی میری مصروفیت ہے اور یہی ادب میری فراغت کو دلنشین اور با معنی بناتا ہے،میرے لئے یہ جز وقتی نہیں کل وقتی سرگرمی ہے، میرا حلقہ ئ احباب جانتا ہے کہ ادبی محافل سے لے کر گھر تک حتیٰ کہ ٹیلیفون پر بھی میں کار ادب کے لئے دستیاب رہتا ہوں، میرے دل کے بہت قریب شاعر دوست اکبر مروت کی ٹیلیفون پر مسلسل ڈانٹ ڈپٹ بھی سنتا رہتا ہوں، پولیس والے ہیں اب سبک دوش ہو گئے ہیں تو شایداپنی پریکٹس جاری رکھنے کے لئے مجھے ڈانٹے رہتے ہیں ابھی دو دن پہلے بھی مجھے ان کا ایک لمبا چوڑا لیکچر سننا پڑا، انہیں جب بھی میر ی کسی ادبی سرگرمی کا علم ہوتا ہے کسی مشاعرے،سیمینار یا مذاکرے کے لئے،دوسرے شہر یا دوسرے ملک جانے کا علم ہو تا ہے ان کا فون آ جاتا ہے،پھر وہی ڈانٹ ڈپٹ اور نیا ہدایت نامہ سنانا شروع کر دیتے ہیں، ”سر جی آپ آرام کیوں نہیں کرتے، واک کتنے دن سے نہیں کی، کھانے کا خیال رکھتے ہیں؟،میں آپ کو کس طرح سمجھاؤں کہ ہر ادبی محفل میں جانا ضروری نہیں ہوتا، اپنی صحت کا خیال رکھیں جی،“ وہ بیک وقت میرے گھر والوں اور میرے معالج کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ میرے پاس صرف دعا کے اور کوئی جواب نہیں ہو تا، ویسے یہ محبتوں کے رشتے سوال و جواب کی منزلوں سے بہت آ گے کے ہو تے ہیں، شاید بہت پہلے ایسی ہی صورت ِ حال کے لئے کہا تھا
رفاقتوں کے سفر کا یہ موڑ ایسا ہے
سوال سنتے رہو تم جواب رہنے دو
ایسے ہی دوستوں کی محبت سے مجھے بہت تقویت ملتی ہے، ایسے ہی دوستوں میں میجر عامر بھی ہیں،ان کی بے پناہ محبتوں اور شفقتوں کا میں بہت مقروض ہوں میں نے جب بھی انہیں کسی شاعر ادیب کے حوالے سے آواز دی ہے انہوں نے کبھی جواب دینے میں لمحہ بھر بھی تا خیر نہیں کی، بہت سی باتیں بتانے کی اجازت نہیں ہے، سو انہیں رہنے دیتا ہوں،لیکن جن سے احباب آ گاہ ہیں ان کا ذکر کرنے میں حرج نہیں ہے،اب بھلا پشاور اور اسلام آباد کا قلم قبیلہ سجاد بابر مرحوم کے لئے میجر عامر کی بے لوث اور عملی محبتیں کیسے بھلا سکتا ہے،پشتو زبان کے تخلیق کاروں کی دلجوئی سے کون واقف نہیں، میں نے انہیں اس حوالے سے بہت کم کبھی فون کیا ہے، بس ایک چھوٹا سا میسج ان کے نمبر پر بھیج کر مطمئن ہو جاتا ہوں،اور پھر ان کا فون آ تا ہے، وہ کام ہو گیا ہے، میں رندھی وآواز میں رسمی شکریہ ادا کرتا ہوں تو ہمیشہ وہ کہتے ہیں،”یہ آپ کا مجھ پر احسان ہے کہ مجھے بتایا، میں احباب کے کسی کام آ کر جس طمانیت اور سرشاری سے شرابور ہو تا ہوں آپ اس کا اندازہ نہیں کرتے“، ایسے موقع پر وہ اپنے والد گرامی شیخ القران مولانا محمد طاہرؒ نوراللہ مرقدہ کا کوئی سنہرا قول،کوئی قیمتی بات یا کوئی سراپا روشنی واقعہ سناتے ہیں، خصوصاََ مخلوق خدا کی خدمت کی تلقین سے متعلق ان کی نصیحت کا ذکر کرتے ہیں، اور کہتے ہیں میں کیا کروں مجھے انہوں نے یہی سکھایا ہے، ایک بات جن کا ذکر ابھی کل ہی فون پر انہوں نے کیا کہ ایک بار ”بدری“ (پنج پیر کے پاس سے گزرنے والی معروف ندی) سے وہ اشاعت توحید و ا لسنہ کے امیر ِ ِ افغانستان ،معروف اور جید عالم دین شیخ القران میر سمیع الحق کے ہمراہ گزر رہے تھے تو مولانا محمد طاہر ؒ نے ان سے اپنے فرزند محمد عامرکی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اس وجہ سے بھی اپنا یہ برخوردار عزیز ہے کہ وہ اپنے ہی نہیں میرے احبا اور دوستوں کا بھی خیال رکھتا ہے،“ میرا خیال ہے میجر عامر اپنے والد مرحوم کی نصیحتوں اور محبتوں کا امین ہیں، اب بھی ایسا ہوا کہ ایک دوست نے ایک دوستانہ شکایت پر مبنی میسج سوشل میڈیا پر بھی پوسٹ کیا اور میرے سمیت کچھ کالم نگار دوستوں کو بھی بھیجا۔ جن میں ڈاکٹر ہمایون ہما، کشر اجمل خٹک، سلیم راز، امجد علی خادم، رحیم اللہ یوسف زئی، غلام حیدر حیدر، منظور الحق،سعداللہ جان برق اور میں بھی شام ہوں۔ پیغام یہ تھا ”کہ میں اس وقت مختلف جان لیوا بیماریوں کا شکار ہوں اور کلچر ڈیپارٹمنٹ میری خبر نہیں لے رہا، یہ احباب اپنے کالموں میں محکمہ ثقافت کے نوٹس میں یہ بات لائیں“ میرے سمیت شاید سب احباب اس بات سے متفق ہیں کہ اگر کالم میں لکھ بھی لیں تو اس کا نتیجہ ڈھاک کے تین پات سے زیادہ کچھ نہیں نکلنے والا کہ یہ کام ماضی میں ہم سب کر چکے ہیں، مجھے یاد ہے کہ میں نے ادب سرائے کے ان کالموں میں سجاد بابر کے بارے لکھا تو ان دنوں میجر عامر بیڈ ریسٹ پر تھے، مجھے نہیں معلوم کہ کب انہوں نے کالم پڑھا، کب وہ گھر والوں سے چیک اپ کے بہانے گھر سے نکلے اور کب بحریہ فیز آٹھکے ہسپتال میں وی آئی پی روم نمبر 1 میں سجاد بابر کے داخلے کے سارے انتظامات کئے لیکن مجھے ان کا فون ٹھیک گیارہ بجے آیا جب میں جمشید علی خان کے ترتیب دئے ہوئے ایک پروگرام میں مو جود تھا، میجر عامر نے کہا میں نے کالم پڑھ کر سارے انتظامات مکمل کر لئے ہیں اب اچھی سی آرام دہ ائیر کنڈیشنڈ ایمبولینس ارینج کر کے ان کو پشاور سے اسلام آ باد پہنچاؤ،، میری خوشی کو آدھا مت کرنا اس ایمبولنس اور راستے کے کھانے پینے کا سارا خرچہ میرے ذمے ہو گا۔ میں نے بعد بھی سجاد بابر کے حوالے سے لکھا مگر کسی متعلقہ محکمہ کو تو اب بھی یہ علم نہیں ہو گا کہ سجاد بابر کون ہے اور کہاں ہے،۔ کالم نگاروں کو یہ میسج پشتو زبان کے معروف شاعر اور ادبی سرگرمیوں کے ایک فعال دوست عبدالخالق بادل کا تھا، مجھے نہیں معلوم باقی دوستوں نے اس کا کیا جواب دیا مگر میں نے بغیر کسی تبصرے کے میجر عامر کو بھیج دیا، مجھے قوی یقین ہے کہ دوست ِ عزیز شاعر، ادیب، محقق و نقاد اور علم دوست،ادب دوست اور یاروں کے یار پروفیسر ڈاکٹر محمد ہمایون ہما نے بھی یقیناََاپنے دوست میجر عامر یا کسی اور سے بھی شاید بات کی ہو گی، مجھے معلوم نہیں مگر مجھے میجر عامر کا فون آ یا کہ عبدالخالق بادل ہسپتال میں داخل ہقو گئے ہیں اور آج سے ان کا علاج بھی شروع ہو جائے گا، رات گئے عبدالخالق بادل کا بھی میسج آ گیا کہ میں ہسپتال میں ہوں اور علاج شروع ہو چکا ہے،شاید جگر کی پیوند کاری کی جائے گی، احباب سے ان کی جلد صحتیابی کے لئے خصوصی دعا کے ساتھ ساتھ میجر عامر کو بھی اپنی خاص دعاؤں میں یاد رکھنے کی درخواست کرتا ہوں،حالی نے کہا ہے
بہت جی خوش ہوا حالی ؔ سے مل کر
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں
ارداہ تھا کہ ڈیرھ بات اب کے بھی حبیب اللہ خان ختک کی بے حد خوبصورت کتاب ”آشفتہ بیانی“ پر کروں گا،یوں بھی میں نے گھر میں کہہ رکھا تھا کہ یہ کتاب جونہی مجھ سے فارغ ہو گی آ پ بھی پڑھئے گا، سو ان کا انتظار طول پکڑتا گیا یہ بات میں نے حبیب اللہ خان خٹک سے بھی کہی تو انہوں نے کمال مہربانی سے دونسخے فوراََ کورئیر کے ذریعے بھیج دئیے، اب میں قدرے سکون سے بار ِ دگر پڑھ رہا ہوں، اور سچی بات ہے کہ بار دگر پڑھنے پر بھی وہی لطف لے رہا ہوں۔البتہ اس ہفتے مجھے جو کتب و رسائل ملے ہیں ان کا ذکر بھی لازمی ہے سب سے پہلے تو ذکر لاہور سے باقاعدگی سے شائع ہونے والے ادبی جریدے بیاض کا جو ہر ماہ کی پہلی یا دوسری تاریخ کو ملتا ہے، اب کے بھی بر وقت ملا اس میں معاصر ادب کا عمدہ انتخاب ہے، پشاور کا حصہ کم کم ہی ہوتا ہے بہت پہلے ڈاکٹر زبیر شاہ کا یک عمدہ افسانہ اس میں شامل ہوا تھا اب کے ڈاکٹر اسحق وردک کی غزل پشاور کی نمائندگی کر رہی ہے، احباب کو اس حوالے سے بھی فروغ ادب میں اپنا حصہ ڈالنے کی سعی کرنا چاہئے، ڈاکٹر نور حکیم جیلانی کا دینی، تعلیمی اور ادبی مجلہ سہ ماہی الاسلام پشاور بھی شائع ہو گیا ہے اس بار اس میں معروف شاعر،ادیب اور علم عروض پراردو بحریں کے مصنف سابق سفیر افغانستان سید ابرار حسین اشعر سے ایک بہت عمدہ مکالمہ بھی شامل اچاعت ہے یہ مجلہ 0311 918 0764 پر مدیر سے رابطہ کر کے حاصل کیا جاسکتا ہے، معروف شاعرہ بشری فرخ کا تیسرا نعتیہ مجموعہ ”خدائے ما ثنا خوان ِ محمد ﷺ“ بھی اسی ہفتے ملا ہے جب کہ دوست عزیز اور پشتو نظم و نثر کی ان گنت کتابوں کے مصنف سید صابر شاہ صابر کی تازہ تصنیف‘’‘’جنازے“ کا دوسرا حصّہ بھی موصول ہوا ہے اسی طرح بونیر سے شاعر ادیب موسیٰ گل گلؔ کی مختصر کہانیوں کا مجموعہ ”داج“ اور ہزارہ سے یوسف اختر کے شعری مجموعہ ”خراج“ کے ساتھ ساتھ حاجی محمد اسلم کی تایخ و تحقیق اور تنقید کی تازہ تصنیف ”پختو فلمونہ“ بھی موصول ہو ئی ہے،انتساب سعداللہ جان برق کے نام ہے جبکہ بیک ٹائٹل پر ابا سین یوسفزئی کا تعارفی تبصرہ اور کتاب میں چوبیس احباب کے تاثرات شامل ہیں اور اچھے بک سٹال پر دستیاب ہے۔ ماہنامہ بیاض سے ایک شعر پر آج کی بیٹھک بند کرتا ہوں
خود آگہی بھی تھی اک کیف بے خودی بکنار
وہ خود نگر تھا مگر بے نیاز کتنا تھا

younus khayyal

About Author

2 Comments

  1. یوسف خالد

    ستمبر 19, 2020

    ماشا اللہ بہت دلپذیر تحریر ہے

  2. Amjad minhas

    ستمبر 19, 2020

    آپ کی ادبی خدمات لائقِ تحسین ہیں۔ سلامت رہیں

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

کالم

ترقی یا پروموشن ۔۔۔۔ خوش قسمتی یا کچھ اور

  • جولائی 11, 2019
ترجمہ : حمیداللہ خٹک کون ہے جوزندگی میں ترقی نہ چاہتاہو؟ تقریباًہرفرد ترقی کی زینے پر چڑھنے کا خواب دیکھتا
کالم

کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالی

  • اگست 6, 2019
از : یوسف خالد کشمیر جل رہا ہے اور دنیا بے حسی کی تصویر بنی ہوئی ہے — دنیا کی