نہ بھول کر بھی تمنائے رنگ و بو کرتے
چمن کے پھول اگر تیری آرزو کرتے
جناب شیخ پہنچ جاتے حوض کوثر تک
اگر شراب سے مے خانے میں وضو کرتے
مسرت آہ تو بستی ہے کن ستاروں میں
زمیں پہ عمر ہوئی تیری جستجو کرتے
ایاغ بادہ میں آ کر وہ خود چھلک پڑتا
گر اس کے مست ذرا اور ہاؤ ہو کرتے
انہیں مفر نہ تھا اقرار عشق سے لیکن
حیا کو ضد تھی کہ وہ پاس آبرو کرتے
پکار اٹھتا وہ آ کر دلوں کی دھڑکن میں
ہم اپنے سینے میں گر اس کی جستجو کرتے
غم زمانہ نے مجبور کر دیا ورنہ
یہ آرزو تھی کہ بس تیری آرزو کرتے
گراں تھا ساقی دوراں پہ ایک ساغر بھی
تو کس امید پہ ہم خواہش سبو کرتے
جنون عشق کی تاثیر تو یہ تھی اخترؔ
کہ ہم نہیں وہ خود اظہار آرزو کرتے