وہی ہے جبر ، وہی بے بسی ہماری ہے
وہی خدا ہیں ، وہی بندگی ہماری ہے
نہ دکھ ہیں بدلے،نہ دکھ دینے والے بدلے ہیں
وہی نصیب ، وہی زندگی ہماری ہے
ہے کب کسی کے کہیں آنے جانے سے بدلی
یہ مستقل ہے ، جو لاچارگی ہماری ہے
ہمیں پتہ ہے ، نہیں ہے بہادری اسکی
ہمیں پتہ ہے کہ یہ بزدلی ہماری ہے
شکم کی آگ کے آنکھوں سے بہہ نکلنے میں
کسی کا دوش نہیں کج روی ہماری ہے
ہمارے وہموں کی ترتیب کو نہ چھیڑے کوئی
کہ اب ، حضور ! اسی میں خوشی ہماری ہے
عدالتیں ہوں یا سرکار ہو یا دیگر ہوں
سبھی ہے انکا ، فقط شاعری ہماری ہے
بلند و برتر و اعلی براے عز وجلال
اسے بھی دیکھ جو بے مائیگی ہماری ہے
خدائے غم تری تقسیم کو سمجھتے ہیں
خوشی ہے اوروں کی آذردگی ہماری ہے
تمہارے ظلم کا انجام ہونے والا ہے
ہمیں یقین ہے اگلی صدی ہماری ہے
۔۔۔