غزل

کچھ یادگارِ شہر ستمگر ہی لے چلیں : ناصر کاظمی

 

کچھ یادگارِ شہر ستمگر ہی لے چلیں
آئے ہیں اس گلی میں تو پتھر ہی لے چلیں

یوں کس طرح کٹے گا کڑی دھوپ کا سفر
سر پر خیالِ یار کی چادر ہی لے چلیں

رنجِ سفر کی کوئی نشانی تو پاس ہو
تھوڑی سی خاکِ کوچۂ دلبر ہی چلیں

یہ کہہ کے چھیٹرتی ہے ہمیں دل گرفتگی
گھبرا گئے ہیں آپ تو باہر ہی لے چلیں

اس شہرِ بے چراغ میں جائے گی تو کہاں
آ اے شبِ فراق تجھے گھر ہی لے چلیں

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں