خود آدھا گھٹتا ہوں خود آدھا پڑتا ہوں
میں پھول بناتا ہوں میں غنچے گھڑتا ہوں
یونہی تو نہیں ہوتی تجسیم اک آنسو کی
میں روز اجڑتا ہوں میں روز ادھڑتا ہوں
شاخوں پر پتّے ہیں پتوں پر زنجیریں
آٸینوں کے اوپر بھی میں ہیرے جڑتا ہوں
سُر پورا ہو کر حلق سے باہر آتا ہے
جب شاخ پہ پکتا ہوں تب وہاں سے جھڑتا ہوں
سوقسموں کی آوازوں کو اذن ہے شب بھر کا
دہشت سے بھرا دن ہے آواز جکڑتا ہوں
ابرق سا سویرا ہوں اور ایک مچھیرا ہوں
بگلے کی طرح پانی سے خواب پکڑتا ہوں