غزل : ڈاکٹرشاکر حسین

کچھ ہیں رشتے مگر ادھورے ہیں
اِن امیروں کے گھر ادھورے ہیں
تم میرے ساتھ جب نہیں ہوتے
خوشبوؤں کے سفر ادھورے ہیں
کس نے شاخوں کو نوچ ڈالا ہے
پھول، کلیاں، شجر ادھورے ہیں
خواب جن کو اذییتیں بخشیں
اُن کے شام و سحر ادھورے ہیں
زندہ لاشیں ہیں چلتی پھرتی سی
جسم بونے ہیں سر ادھورے ہیں
مستقل نیند سے ہوں نا امید
کتنے خوابوں کے در ادھورے ہیں
اُس طرف ہو گیا ہے وہ تقسیم
ہم بھی شاکر اِدھر ادھورے ہیں
واااااااااااااہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت عمدہ غزل
زندہ لاشیں ہیں چلتی پھرتی سی
جسم بونے ہیں سر ادھورے ہیں
غزل کا اصل رنگ لئے حسن بیان کی عمدہ مثال ہر شعر ایک جامع تحریر بہت خوب