کچھ ہیں رشتے مگر ادھورے ہیں
اِن امیروں کے گھر ادھورے ہیں
تم میرے ساتھ جب نہیں ہوتے
خوشبوؤں کے سفر ادھورے ہیں
کس نے شاخوں کو نوچ ڈالا ہے
پھول، کلیاں، شجر ادھورے ہیں
خواب جن کو اذییتیں بخشیں
اُن کے شام و سحر ادھورے ہیں
زندہ لاشیں ہیں چلتی پھرتی سی
جسم بونے ہیں سر ادھورے ہیں
مستقل نیند سے ہوں نا امید
کتنے خوابوں کے در ادھورے ہیں
اُس طرف ہو گیا ہے وہ تقسیم
ہم بھی شاکر اِدھر ادھورے ہیں
younus khayyal
مارچ 2, 2021واااااااااااااہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت عمدہ غزل
زندہ لاشیں ہیں چلتی پھرتی سی
جسم بونے ہیں سر ادھورے ہیں
مسز دستگیر نازش
مارچ 2, 2021غزل کا اصل رنگ لئے حسن بیان کی عمدہ مثال ہر شعر ایک جامع تحریر بہت خوب