ڈاکٹرستیہ پال آنند
دیکھ ، اس کو نہ سمجھ اپنی شفا ، گھر مت جا
تیرے پُرکھوں کی ہے میراث وبا، گھرمت جا
دھول رستوں کی بلاتی ہے ترے قدموں کو
رُک ذرا،غور سے سُن اس کی صدا،گھرمت جا
میل پتھر ہے کہ ہے ایک عصا گاڑا ہوا
تیری درگاہ ہے یہ، بیٹھ ذرا ، گھر مت جا
تیرے گھر پر ہے ترے بیٹوں کا قبضہ، بابا
لوٹ جا، اپنا یہ سامان اٹھا ، گھر مت جا
گھرسے باہر بھی بہت کچھ ہے ترے کرنے کو
بیٹھ یاروں میں کوئی نظم سنا ، گھر مت جا
جانی پہچانی نہیں اب وہ اجُدھیا، اے رام
اپنے بنباس کی معیاد بڑھا ، گھر مت جا