غزل

غزل : نویدظفرکیانی

یورشِ شب ہے غضبناک تو حل اور سہی
تو نہ بجھ جائے تو پھر ایک مشعل اور سہی

ظلمتِ شب تو ضمیروں میں اُتر آتی ہے
چاند تاروں کی مگر فردِ عمل اور سہی

خون کے داغ مری آنکھ سے دُھلتے ہی نہیں
مرگِ احساس کا قصہ ہے، اجل اور سہی

تیری مجبوری نے توڑا ہے اگر عہدِ وفا
میری جانب سے بھی اک ردوبدل اور سہی

غمِ امروز پہ کیوں صبر نہیں آتا ہے
بسکہ ایمان بھی ہے کہ مرا کل اور سہی

اک دیا بن کے چلا بادِ مخالف کی طرف
گردشِ دوراں میں اک مجھ سے خلل اور سہی

آؤ مل جل کے کسی خواب کی تعمیر کریں
ہم غریبوں کا بھی اک تاج محل اور سہی

عمر کی جھیل اگر صاف نہیں ہو پاتی
اس میں اِک تیری بھی یادوں کا کنول اور سہی

خوفِ تنہائی سے بہتر ہے کوئی دستِ فریب
جال اس گھات کا بھی برسرِ جل اور سہی

درد کی آگ بھڑکتی ہے مرے سینے میں
رات باقی ہے ابھی، ایک غزل اور سہی

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں