یورشِ شب ہے غضبناک تو حل اور سہی
تو نہ بجھ جائے تو پھر ایک مشعل اور سہی
ظلمتِ شب تو ضمیروں میں اُتر آتی ہے
چاند تاروں کی مگر فردِ عمل اور سہی
خون کے داغ مری آنکھ سے دُھلتے ہی نہیں
مرگِ احساس کا قصہ ہے، اجل اور سہی
تیری مجبوری نے توڑا ہے اگر عہدِ وفا
میری جانب سے بھی اک ردوبدل اور سہی
غمِ امروز پہ کیوں صبر نہیں آتا ہے
بسکہ ایمان بھی ہے کہ مرا کل اور سہی
اک دیا بن کے چلا بادِ مخالف کی طرف
گردشِ دوراں میں اک مجھ سے خلل اور سہی
آؤ مل جل کے کسی خواب کی تعمیر کریں
ہم غریبوں کا بھی اک تاج محل اور سہی
عمر کی جھیل اگر صاف نہیں ہو پاتی
اس میں اِک تیری بھی یادوں کا کنول اور سہی
خوفِ تنہائی سے بہتر ہے کوئی دستِ فریب
جال اس گھات کا بھی برسرِ جل اور سہی
درد کی آگ بھڑکتی ہے مرے سینے میں
رات باقی ہے ابھی، ایک غزل اور سہی