غزل

غزل : ناصر علی سید

ایک انہونی کا ڈر ہے   اور میں
دشت کا اندھا سفر ہے اور میں

حسرتِ تعمیر پوری یوں ہوئی
حسرتوں کا اک نگر ہے اور میں

بام و در کو نور سے نہلا گیا
ایک اڑتی سی خبر ہے اور میں

مشغلہ ٹھہرا ہے چہرے دیکھنا
اس کے گھر کی رہگزر ہے اور میں

جب سے آنگن میں اٹھی دیوار ہے
اس حویلی کا کھنڈر ہے اور میں

وقت کے پردے پہ اب تو روزوشب
اک تماشائے دگر ہے اور میں

جانے کیا انجام ہو ناصر مرا
ایک یارِ بےخبر ہے اور میں

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں