ہنسنے سے ہوا ہے نہ یہ رونے سے ہوا ہے
دل اتنا حزیں عشق میں کھونے سے ہوا ہے
ممکن ہے کہ پورا ہو یہ دو چار برس میں
نقصان جو دنیا کا کرونے سے ہوا ہے
بکھرے ہیں مِرے بال مِری شیو بڑھی ہے
یہ حال مسلسل مِرے سونے سے ہوا ہے
چہرہ مرا روشن تھا مگر اور بھی روشن
غزلوں میں تِرا نام پرونے سے ہوا ہے
خوشبو مرے آنگن میں جو پھیلی ہے سر شام
یہ لان میں اک بیج کے بونے سے ہوا ہے
اس موذی وبا سے جو بچا ہوں مَیں ابھی تک
یہ کام قمر ہاتھوں کو دھونے سے ہوا ہے