غزل

غزل : فیصل اکرم

فیصل اکرم
فیصل اکرم
تیر بن کے چبھ رہے ہیں یوں اجالے آج پھر
روشنی سے بہہ گئے آنکھوں کے چھالے آج پھر
خود کلامی مت سمجھ تُو سایہ بھی تو ساتھ تھا
جا سیانے ڈاکٹر سے تُو دوا لے آج پھر
ہے بدن میں دل چراغِ روزنِ دیوار سا
آ وجودِ روشنی سے لَو چُرا لے آج پھر
خاک میں پنہاں ہوئی ہے اب نکل کے ہر امنگ
یوں دریدہ دل رفوگر کے حوالے آج پھر
میرا سایہ پشت سے آگے ہوا تو یوں لگا
ہے تعاقب میں کوئی خنجر سنبھالے آج پھر

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں