غزل

غزل : فیصل اکرم

فیصل اکرم

جو دنیا نے سکھائے ہیں وہ سب اسباق رکھتا ہوں
میں دشمن کے ٹھکانوں پر نشانہ تاک رکھتا ہوں

یہاں ڈوبا تو نکلوں گا زمیں کے دوسری جانب
طلوعِ سحر کے جیسا میں استحقاق رکھتا ہوں

ہوا کیا ہے، ہوا کیا تھا، کہاں، کیسے کہ کب ہو گا
مجھے ہے دیکھنا ، آنکھوں کو مَیں مشتاق رکھتا ہوں

کہ جن پہ لکھ نہیں پایا ابھی تک نام بھی تیرا
مَیں اپنے بیگ میں جاناں وہ سب اوراق رکھتا ہوں

کوئی تو لوٹ لے ہم کو کوئی برباد ہی کر دے
میں اپنے قافلے میں اپنے ہی قزاق رکھتا ہوں

یوں اپنی فکر سے افلاک تک کی سیر کرتا ہوں
کہ اب پرواز کی خاطر میں اک براق رکھتا ہوں

بدل جاتے ہیں اپنے قول سے وہ شام ہوتے ہی
مَیں اپنی جیب میں لکھا ہوا میثاق رکھتا ہوں

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں