کاغذ پہ جھیل،جھیل میں کشتی رکھی ابھی
اس پر سوار خواب ، ہوا لے اڑی ابھی
میں نے ہوا میں ایک اشارہ کیا فقط
بارش کہیں سے آ گئی اڑتی ہوئی ابھی
آنکھیں مرے وجود کا حصہ نہیں رہیں
دیکھی کھلی چراغ کی کھڑکی ابھی ابھی
گلشن میں کچھ پرند ہیں پچھلی بہار کے
پچھلی بہار کی نہیں خوشبو گئی ابھی
دیوار و در پہ عکس ہیں تیرے وجود کے
حالت کہاں درست ہے بیمار کی ابھی
کہتے ہیں میرے ہاتھ میں تاثیر ہے بہت
سیکھی نہیں ہے میں نے یہ کوزہ گری ابھی
دیکھی ہے اس کی آنکھ مسیحا کے روپ میں
رہتی ہے اس کے ہاتھ کی چارہ گری ابھی
کب سے ہوں تیری یاد کے غاروں میں بے نشاں
مشعل جو جل رہی ہے وہ بجھنے لگی ابھی
اڑنے لگی ہے خاک جو صحرا کی آنکھ میں
ظاہر ہوئی ہے عشق کی دیدہ وری ابھی