غزل

غزل : غزالہ شاہین مغل

صرف  کافی نہیں  محبت   بھی
چاہئیے اس میں کچھ توشدت بھی

جان  لیوا  ہر  ایک  پل  میرا
روٹھنا تیرا  اور  الفت  بھی

جب سے آہوں کا دل بنا مدفن
کانپ اٹھّے پہاڑ، پربت بھی

تجھ سے جھگڑے کا ہیں سبب دونوں
تیری مصروفیت بھی عجلت بھی

لاکھ جھنجھٹ ہیں جیتے جی لاحق
چین دے پائے گی نہ تربت بھی

بدگمانی کی آخری حد ہے
کام آئے نہ جب وضاحت بھی

جھک کے شاہا سلام کر، میں نے
جھیلی فرقت بھی اور عسرت بھی

سچ کو پیروں میں روندنے والو
جھوٹ میں پاؤ گے خجالت بھی

عشق  دربار  کے  مجاور   نے
تھک کے مانگی ہے اب اجازت بھی

مر گئیں انتظار میں آنکھیں
آہ بنتی ہے ان کی عدّت بھی

اک  ترقّی  پسند  مانگے  ہے
عشق میں راحتیں بھی جدت بھی

بے وفائی کروں کہاں ثابت
سوگ میں بند ہے عدالت بھی

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں