صرف کافی نہیں محبت بھی
چاہئیے اس میں کچھ توشدت بھی
جان لیوا ہر ایک پل میرا
روٹھنا تیرا اور الفت بھی
جب سے آہوں کا دل بنا مدفن
کانپ اٹھّے پہاڑ، پربت بھی
تجھ سے جھگڑے کا ہیں سبب دونوں
تیری مصروفیت بھی عجلت بھی
لاکھ جھنجھٹ ہیں جیتے جی لاحق
چین دے پائے گی نہ تربت بھی
بدگمانی کی آخری حد ہے
کام آئے نہ جب وضاحت بھی
جھک کے شاہا سلام کر، میں نے
جھیلی فرقت بھی اور عسرت بھی
سچ کو پیروں میں روندنے والو
جھوٹ میں پاؤ گے خجالت بھی
عشق دربار کے مجاور نے
تھک کے مانگی ہے اب اجازت بھی
مر گئیں انتظار میں آنکھیں
آہ بنتی ہے ان کی عدّت بھی
اک ترقّی پسند مانگے ہے
عشق میں راحتیں بھی جدت بھی
بے وفائی کروں کہاں ثابت
سوگ میں بند ہے عدالت بھی