غزل

غزل : غزالہ شاہین مغل

سب بھر چکے ہیں زخم نشاں اب نہیں رہا
آنکھوں میں حسرتوں کا جہاں اب نہیں رہا
سب دھیرے دھیرے جاچکے ہیں چھوڑکرمجھے
آباد پیار کا    وہ    مکاں    اب    نہیں رہا
یکلخت اس نے پھیر لیں آنکھیں نہ پوچھئے
شاید کہ پیار کا وہ سماں اب نہیں رہا
مجھ میں سمٹ کے رہ گئی ہیں میری وحشتیں
سوچوں کے درمیاں بھی دھواں اب نہیں رہا
خود کو جلا کے کردئیے روشن یہ راستے
مایوسیوں کا کونہ یہاں    اب نہیں رہا
مغرور    ہے    وہ خود کو سمجھتا    ہے فلسفی
ماشہ بھی اس میں خوف بیاں اب نہیں رہا
کھلنے لگے گلاب ہیں چاروں طرف مرے
میرے چمن میں دور خزاں اب نہیں رہا

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں