غزل

غزل : شوکت علی نازؔ


شوکت علی نازؔ

عمر  بھر جو    جیا مرا ہو کر
آج کیوں چل دیا جدا ہو کر

میری    چاہت کی انتہا ہو کر
جا رہا    ہے    کوئی خفا ہو کر

چھوڑ جائے گا تو اندھیروں میں
پر جیوں گا     تری ضیاء ہو کر

ایک رستہ ہماری    منزل ایک
اجنبی    بن    نہ آشنا    ہو کر

میں ہوں انسان وہ بھی انساں ہے
مل    رہا    ہے مگر      خدا ہو کر

نہ جھکوں گا    تمہارے آگے میں
دیکھ    لے تو بھی    دیوتا ہو کر

ڈوبا ہے کفر کی    ذلالت    میں
اور    پھرتا ہے    پارسا ہو کر

ناز جب تک کوئی نہ لوٹے گا
یوں ہی بیٹھیں گے راستہ ہو کر

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں