غزل

غزل : سید کامی شاہ

سید کامی شاہ
سید کامی شاہ
ہر ایک چہرے میں چہرہ ترا نظر آئے
ترے سوا نہیں کوئی تو کیا نظر آئے
دکھائی دے کہیں پانی میں آگ سی کوئی
اور آگ میں بھی کوئی رنگ سا نظر آئے
تُو میرے دل پہ کبھی ہاتھ رکھ کے دیکھ ذرا
سنائی دے تجھے دھڑکن، دُعا نظر آئے
فسونِ عالمِ ہستی، کمالِ دیدہ و دل
جو کوئی دیکھے اُسے باخدا نظر آئے
تماشا گاہ میں سب کچھ ہے دیکھنے کے لیے
سو دیکھیے جو بھی اچھا بُرا نظر آئے
جو دیکھنے کو ہی راضی نہیں ہے خواب کوئی
بتایئے اُسے کیسے بھلا نظر آئے
ہے دیکھنے کو ضروری نگاہ کا ہونا
سو دھیان کر کہ تجھے دوستا نظر آئے
یہ ریگ زار کسی آنکھ پر کھلے جو کبھی
ہر ایک ذرہٗ ریگ آئینہ نظر آئے
پرائے گھر میں کسی آئنے کو تکتے ہوئے
عجب نہیں جو کوئی دوسرا نظر آئے
دکھائی دے جو کہیں خون میں رواں کامی
،،وہی چراغ میں جلتا ہُوا نظر آئے

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں